عظمیٰ نیوزسروس
سرینگر// نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے لیہہ میں حالیہ بدامنی کو مقامی لوگوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی سے تعبیر کرتے ہوئے مرکز پر زور دیا کہ وہ لداخ جیسے حساس سرحدی علاقے میں آوازوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے مذاکرات کا عمل شروع کرے ۔ انہوں نے اس بدامنی کے دوران جاں بحق ہونے والوں کے افراد خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ موصوف صدر نے جمعرات کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا’’یہ صورتحال طویل عرصے سے جاری شکایات کا براہ راست نتیجہ ہے جن کا کوئی ازالہ نہیں کیا گیا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ماہر ماحولیات سونم وانگچک نے 14دنوں تک بھوک ہڑتال کی اور یہاں تک کہ لداخ کے مطالبات کی طرف توجہ دلانے کے لیے لیہہ سے دہلی تک ننگے پاؤں پیدل مارچ بھی کیا لیکن پھر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نےکہا’’وہ گذشتہ پانچ برسوں سے خاموشی سے احتجاج کر رہے ہیں کہ لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے اور ریاست کا درجہ دیا جائے ۔ جب پرامن مظاہروں سے کچھ نہیں نکلا، تو نوجوان نسل نے تشدد کا راستہ اختیار کیا، انہوں نے بی جے پی کے دفتر کو نذر آتش کر دیا، پولیس گاڑیوں اور دوسرے املاک کو نقصان پہنچایا‘‘۔ انہوں نے کہا’’پولیس کو بھی طاقت کا استعمال کرنا پڑا اور چار افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ لداخ کی اسٹریٹیجک لوکیشن کے پیش نظر اس نوعیت کی صورتحال خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔ ان کا کہناتھا’’ایک سرحدی علاقے میں اس قسم کے واقعات کا ہونا خطرناک ہے ، خاص طور پر جب چین ہمیشہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ نے زور دے کر کہا کہ اس وقت بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے اس معاملے میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو رد کرتے ہوئےکہا’’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کسی پارٹی کا ہاتھ نہیں ہے باہر سے کچھ بھی نہیں کرایا جا رہا ہے بلکہ یہ لوگوں کے دلوں کی آواز ہے ،وہ اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتے ہیں‘‘۔ ان کا کہناتھا’’جموں و کشمیر کے ساتھ بھی حد بندی اور الیکشن ہونے کے بعد ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن الیکشن کو 11مہینے ہوگئے اب بھی اس سمت میں کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا ہے ،حکومت کو لیہہ کی صورتحال سے سبق سیکھنا چاہئے‘‘۔ فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ،ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے نئی دہلی سے بات چیت میں شامل ہونے اور مسائل کو حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نےکہا کہ لداخ کے لوگوں کو مایوس کر دیا گیا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ خالی یقین دہانیوں کی بجائے خلوص اور تیز فیصلوں کے ذریعے معاملے کو حل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھاکہ نیشنل کانفرنس ایک ایسی جماعت ہے جس نے ہمیشہ گاندھی جی راستہ اختیار کیا ہے ، ہم نے کبھی بھی تشدد میں یقین نہیں کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نیشنل کانفرنس کے صدر نےکہا’’لداخ میں بی جے پی سال 2019 سے حکومت ہے ، اس میں کانگریس کہاں سے آگئی۔ یہ جماعت لداخ میں دس افراد بھی جمع نہیں کرا سکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا’’کسی پر انگلی اٹھانے سے بہتر ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سلجھایا جائے‘‘۔ ان کا کہناتھا’’وانگچک نے بھی گاندھی جی کا راستہ اپنایا لیکن وہاں کے نوجوانوں نے ان کو یک طرف کرکے کہا کہ اب یہ راستہ نہیں چلے گا‘‘۔