جہلم کنارے اداس بیٹھی لیلی اپنے رخسار تلے بایاں ہاتھ رکھے،اپنےدونوں پیر پانی میں ڈبوئے کِسی گہرے خیال میں گُم اپنا عکس پانی میں دیکھ رہی تھی۔ جو عکس کبھی ایک مرد اور کبھی ایک ان کی شکل میں بہتے ہوئے پانی میں دکھائی دے رہا تھا۔ جو کبھی لطیف اور کبھی لیلیٰ دکھ دہا تھا۔
اس کےسرخی مائل ہونٹوں سے خوشی کا نام و نشان تک غائب تھا،آنکھوں میں دو موٹےآنسو بہنے کے لیے بے قرار تھے۔
ایک گھنٹے تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد آسمان کی طرف دیکھ کراپنے رب سے اپنی تخلیق پر سوالات کرتے ہوئے اپنافون، پرس اور شال اُٹھا کرچلی گئی۔
پینتالیس سالہ لیلیٰ درحقیقت لطیف بن کر پیدا ہوئی تھی۔اس کی پیدائش کےفورا بعد ہی اس کی امی کو اِس کے جنسی اعضاء، جو نا تو مرد کے تھے اور نا ہی عورت کے ، دیکھ کر شک و شبہ اور اندیشہ ہوا تھا۔
بیٹے کی خواہش میں اِس کو لطیف نام دیا گیا۔ ماں نے تو اس بات کو راز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی پرلڑکپن تک پہنچتے پہنچتے لطیف کی حقیقت اس کے جسم اور ہاؤ باو دیکھ کر ہر جاننے اور دیکھنے والے کو پتہ چل ہی گئی۔
پانچویں جماعت سے ہی اپنی کلاس کے لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ زیادہ محفوظ اور دوستانہ محسوس کرتی۔ پرلڑکیاں اس کو لڑکا اور لڑکےاس کو لڑکی کہہ کر اپنے آپ سے دور کردیتےاور اس کا مذاق اُڑاتے۔ بعض دفعہ تو اس کے اساتذہ بھی اس کا مذاق اُڑاتے۔
پڑھنے لکھنے میں تیز اورقابل ہونے کے باوجود اس کے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے رویّوںکی وجہ سے اس نے آٹھویں جماعت میں ہی پڑھائی چھوڑ دی اور گھر کی دیواروں میں خود کو قید کر لیا۔
لیلٰی نام بھی اس کے اسکول کی ہی دین تھی۔ جب ایک بار سکول کے ایک فنکشن میںگاناگانے پر بچوں کی بھیڑ میں سے ایک بچّے نے زوردار آوازمیں "لیلٰی" پکارا تھا۔ سب لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے اور لطیف کا نام لیلیٰ پڑا۔
جب لطیف ایک انیس سالہ نوجوان تھا۔ اس کے چہرے پر داڑھی بھی تھی اور آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر لالی بھی۔
وہ خان ڈریس پہنتاپراس کے جسم میں عورتوں کی سی لچک بھی تھی۔
اس کی آواز میں مردانہ بھاری پن بھی تھا اور کندھے پر پرس بھی۔
اس کا جِسم چوڑابھی تھااور عورتوں کی سی نزاکت بھی تھی۔
وہ اکثر اپنی بہنوں کے کپڑے پہنتا اور ان کے سنگھارکا سامان استعمال کرتا۔ لوگ اس کا اصلی نام بھول گئے تھے ۔ اب وہ صرف اور صرف لیلیٰ تھی۔
شروع شروع میں لیلیٰ کی اُن حرکتوںکی وجہ سے اس کے ماں باپ اور بھائی بہن بہت پریشان ہوا کرتے تھے اور اس کو ہر وقت ڈانٹ اور ضلالت سہنی پڑتی۔ اٹھتے بیٹھتے اس پر طعنے کسے جاتے۔ طعنے عورتوں جیسا پہناوا پہننے کے لیے، سنگھار کرنے کے لیے،پرس اٹھانے کے لیے،طعنے ایک ہجڑا ہونے کےلیے۔
لیلیٰ کے جذبات اور احساسات کی کبھی پرواہ ہی نہیں کی گئی۔ لیلٰی جہاں سے گزرتی اُسکا مذاق اڑایا جاتا۔
ایک دن جب لیلیٰ دودھ لانے کیلئے پڑوس کی دکان پر گئی تو موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے اس پر تھوک کر کہا "نہ تو تو مرد ہے اور نہ ہی عورت۔ تمہیں شرم آنی چاہئے کہ بازار میں اس طرح گھوم رہے ہو"۔
لیلیٰ نے بھی غصے میں آ کر اس کے ہاتھ کاخالی لوٹا موٹر سائیکل پر سوار لڑکے کے سر پر دے مارا۔نتیجتاًاس کے سرسےخون بہنے لگا۔
ایک بار لیلیٰ گاڑی میں سوار تھی۔تو ایک ادھیڑعمر کے مرد نے اسے دھکامار کر کہا۔"کمبخت ہجڑےتمہیں کوئی اور گاڑی نہیں ملی۔ استغفراللہ! اپنا جسم میرے کندھےسے دور رکھ"۔
لیلیٰ بے انتہا رو پڑی تھی اور صرف ایک جملہ اس مرد کو واپس بولا۔
"یہ تم مجھے گالی دے رہےہویا میرے بنانے والے کاریگر کو۔روز محشر میں تمہارا گلا پکڑ کر اسکاریگر سےضرور پوچھوں گی۔ جس نے تمہیں مرد بنایا اور مجھے ایسا"۔
لیلیٰ کو طعنے سننےاور سہنے کی عادت سی پڑگئی تھی ۔ کبھی کبھار وہ پلٹ کر جواب دے دیتی اور کبھی اَن سنا کر کے نکل جاتی۔
وقت گزرتا گیا اور لیلی نے اپنا گھر چھوڑ دیا ۔ وہ اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ شامل ہوئی۔ جہاں اسے عزت ملی۔ اس کے احساسات کی قدر کی گئی ۔ جہاںطعنےنہیں دیئے جاتے اورجہاں وہ اپنے دل و دماغ کو سکون فراہم کرتی۔
لیلیٰ کاکام رشتے کرانااور شادیوں میں گانا گانے کا تھا۔ وہ گانے کو اپنے طرز میں گاتی اور اس میں نئے الفاظ جوڑ کر اسے بے حد مقبول بنا دیتی۔ سارےعلاقے میں اس کا گانوں کی چرچا ہوتا۔ شادیوں پر لوگ اس کو گانا گانے کے لیے بڑے ہی شوق سے بلاتے تھے۔
کچھ لوگ کسی مخصوص گانے کی فرمائش کرتےجو لیلیٰ کو ہر صورت میں پوری کرنی پڑتی تھی۔
وہ اپنے گانوں میں ایسے الفاظ اور انداز جوڑتی جو کبھی فارسی کبھی عربی اور کبھی انگریزی لگتے۔
کبھی وہ محض اپنے گانوں کو دلکش اور پرجوش بنانے کے لیے ایسے بے معنی الفاظ اور جملوں کا استعمال کرتی جوسامعین کودیگر ذبانوں کا احساس کراتی۔
لیلٰی اس کام سے اتنےپیسے کماتی تھی کہ وہ دو وقت کا کھانا اور باقی ضروریات زندگی پوری کر پاتی تھی۔
ایک روز لیلیٰ کو شہر کے ایک بڑے گھرانے نےگانے کے لئے بلایا۔ وہ بہت خوش تھی کہ وہاںگانے سے اس کی اچھی خاصی کمائی ہوگی۔
اس نے اپنے گانوں کی کاپی میں کئی نئے گانے جوڑے۔ ایک ہفتے کی محنت کے بعد اس نے نیا گانا تیارکیا جس میں عربی زبان بھی شامل تھی جو اس نے خصوصاً اس محفل میں گایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گانے کا ویڈیو وائرل ہوا اوراس وائرل ویڈیو پر کئ طرح کا رد عمل ظاہر کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے تو ہنگامہ برپا کردیا۔
کئی حضرات نے تو فتویٰ دینے شروع کئے اور ایک صاحب نے تو لیلیٰ کو سرعام قتل کرنے کا حکم نامہ یہ کہہ کر جاری کیاکہ اس نے اللہ کے کلام کی بے حرمتی کی ہے۔
لیلیٰ کو گانے کے لیے بلانے والے لوگوں کو تو حکمِ کُفر دیا گیا۔
لیلیٰ کو بےعزت،بدتمیز، بے شرم، ان پڑھ اور کئی سارے نام دیے گئے۔لیلیٰ کی ایسی ذلالت کی گئی جس کا سامنا اسے پوری عمر نہیں کرنا پڑا تھا۔
اپنی عزت کا تماشا بنتے اور جنازہ نکلتے تو لیلیٰ نے بہت بار دیکھا تھا ۔پراب کی بارتو اس کی روح پر حملہ ہوا تھا۔ جو اتنی گہرائی سے مجروح ہوئی تھی جس کا سنبھلنا ناممکن تھا۔
لیلیٰ ہر وقت یہی پوچھتی رہتی۔ "کیا یہ سماج کے رہنما اوررہبر لوگ مجھے ذلیل کرنے کے بجائےراہ راست نہیں دکھا سکتے تھے؟"۔
���
اسسٹنٹ پروفیسر ڈگری کالج حاجن