Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

لیلتہ القدر۔نزولِ ہدایت کی مُبارک رات تجلیات ادراک

Towseef
Last updated: March 27, 2025 12:15 am
Towseef
Share
15 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

رب تعالیٰ نے انسان کی صورت میں ایک ایسی مخلوق کو پیدا فرمایا جس کے اندر ’’ہمیشہ رہنے کی تمنا‘‘ (خلد) اور ’’اقتدار کی آرزو‘‘ (ملک) رکھ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کائنات کی ’’وسعتوں‘‘ سے متاثر بھی ہوتا ہے اور ان ’’وسعتوں‘‘ کو ’’تسخیر‘‘ کرکے نہ صرف اپنے آرام و سکون کے نت نئے سامان تلاش کرتا رہتا ہے بلکہ اپنے ذہنی اور فکری تفوق کو منواتا بھی رہتا ہے۔ تاہم اس سب ذہنی اور جسمانی تگ و دو کے باوجود انسان اپنے آپ کو نہ صرف بے بس پاتا ہےبلکہ اسے اپنی بے ثباتی کا شدید احساس بھی ہوتا ہے۔ شعوری طور پر ایک اعلیٰ اور جسمانی طور پر ایک منضبط مخلوق ہونے کے باوجود انسان کا زمان و مکان کی اتھاہ گہرائی اور گیرائی میں گم ہوجانا یا حیات ظاہر کے اعتبار سے بے حقیقت ہونا نظام ہستی کی مقصدیت کو مشکوک بنادیتا ہے۔

واضح رہے کہ شیطان نے ابتداء میں ہی انسان کی تمنائے خلد (دوام) اور آرزوئے اقتدار (ملک) کو بھانپ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہی کا حوالہ دیکر اس نے اسے جنت کی بادشاہت سے بے دخل کروایا تھا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو۔‘‘ (طٰہٰ، ۱۲۰) تاہم علیم و حکیم خدا، جس نے یہ تمنا انسان کے اندر ودیعت کی تھی، نے اسے از اسر نو یہ بادشاہت عطا کرنے کا انتظام فرما رکھا تھا۔ اس اعزاز کو پانے کے لئے رب تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں پکارتا ہے: ’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔‘‘ (آل عمران، ۱۳۳) اسے یہ بھی سمجھایا گیا کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود انسان جیسی ذی شعور مخلوق کے لئے فقط ’’متاع الغرور‘‘ (دھوکے کا سامان) ہے۔ اس دھوکے سے ہوشیار رہنے اور یہاں کے عارضی زمان و مکان کے ماضی کے پچھتاؤں اور مستقبل کے اندیشوں سے بحفاظت نکالنے کے لئے رب تعالی نے اسے یوں مژدہ سنایا: ’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے (زمین کی طرف) چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔‘‘ (البقرہ، ۳۸)

سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد تواتر کے ساتھ انبیاء کرام کا بھیجا جانا اسی اعلان کا عملی اظہار ہے۔ (رسلنا تترا، المؤمنون، ۴۴) رب تعالیٰ نے انبیاء کرام کو قریہ قریہ (ولکل قوم ھاد، الرعد، ۷) بھیجا تاکہ انسانی بستیوں میں سے کوئی بستی ہدایت کی نعمت سے محروم نہ رہے۔ تاہم قرآن نے ان انبیاء کرام میں سے قرآن میں چند ہی کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے بھی بعض کی طرف فقط اشارہ کیا ہے، جبکہ بعض کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’’اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کئے۔‘‘ (النساء، ۱۶۴) جہاں تک ان انبیاء کرام پر کتابوں کے نزول کا سوال ہے، تو تورات، انجیل اور زبور کا اچھا خاصا ذکر کیا گیا ہے، جبکہ ’’صحف ابراہیم‘‘ کی طرف فقط اشارہ کیا گیا ہے۔ (الاعلی، ۱۹) تاہم انبیاء کرام کے متبعین نے اختلاف میں پڑ کر ان کتابوں کے بیشتر حصے کو ضائع کردیا۔ اس آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: ’’جنہوں نے کتاب الہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔‘‘ (الحجر، ۹۱)

انسانیت کی رشد و ہدایت کے اعتبار سے اس منتشر صورت حال کا سد باب کرنے کے لئے رب تعالیٰ نے اپنا آخری ہدایت نامہ بھیجنے کا فیصلہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ اس آخری کتاب کو ’’قول فیصل‘‘ (الطارق، ۱۳) کے طور پر خدا کے آخری نبی، محمد ؐپر نازل فرمانے کا انتظام کیا گیا۔ یعنی اس کتاب کا یہ اعجاز قرار دیا گیا کہ اسے توحید، رسالت اور معاد کے بنیادی عقائد، جو اگلی کتابوں کا بھی مغز رہا ہے، کی پاسبانی کرنا تھی۔ اس سلسلے میں رب تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔‘‘ (المائدہ، ۴۸) یعنی امتداد زمانہ کے ساتھ لوگوں نے حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کیا تھا، اللہ کی آخری کتاب کا یہ مقدر قرار دیا گیا کہ اسے اس اختلاف کا فیصلہ فرمانا تھا۔

واضح رہے کہ ابراہیمی روایت میں جس طرح صوم و صلوٰۃ و حج کو مقرر کردیا گیا تھا، اسی طرح رمضان کے اعتکاف کو بھی مشروع کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بگڑی ہوئی صورت حال کے باوجود خانۂ کعبہ میں اعتکاف کیا جاتا تھا، اسی طرح آل عبدالمطلب جبل نور (جہاں غار حراء ہے) میں معتکف بھی ہوا کرتے تھے۔ اعتکاف کی اسی حالت میں ایک سال رمضان کے آخری عشرے کی کسی طاق رات میں جبرائیل ؑ، رسول اللہؐ کے سامنے نمودار ہوئے اور اس طرح کلام الہٰی کے نزول کی رب تعالیٰ کے اذن سے شروعات کی: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘ (العلق، ۱) واضح رہے یہ مراقبہ کی کوئی حالت نہیں تھی کہ جس میں نبیؐ کو غور و فکر سے کسی بات کا انکشاف ہوا۔ یہ دراصل وحی کا وہی تجربہ تھا جو سیدنا آدم ؑ سے سیدنا مسیح ؑتک تمام انبیاء کرام کو ہوتا رہا تھا۔ تاہم ربانی پیغام رسانی کا یہ سلسلہ اب آخری بار خاتم النبیینؐ کے ذریعے انسانیت کے ساتھ استوار ہورہا تھا۔

جونہی نزول قرآن کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو رب تعالیٰ نے اس پیغام کی محفوظ ترسیل کے لئے آسمانی راستوں کی سخط نگرانی کا انتظام فرمایا، جہاں پر بیٹھ کر شیاطین مختلف قسم کی خبریں اچک کر لاتے تھے۔ اس حوالے سے قرآن کا ارشاد ہے: ’’اور ہم (جنوں) نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا۔ اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لئے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اب جو بھی کان لگاتا ہے، وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے۔‘‘ (الجن، ۸-۱۰) ظاہر ہے کہ قرآن ۲۳ برس مسلسل نازل ہوتا رہا، اس لئے اس طرح کی حفاظت کا انتظام نہایت ضروری تھا۔ یعنی انسانیت کی ابدی ہدایت کے لئے یہ ایک بڑا فیصلہ تھا، اس لئے اس رات کی خصوصی عظمت کو اسی شان کے ساتھ بیان کیا گیا، تاکہ کوئی بھی ذی شعور انسان یہ جان لے کہ انسانیت کے لئے ’’عالم امر‘‘ سے کتنا بڑا فیصلہ کیا گیا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘(القدر، ۱-۳)

یہاں پر اس بات کا جان لینا ضروری ہے کہ جس طرح انسانی روح (انسانی جسم کے مقابلے میں) ’’عالم امر‘‘ سے آتی ہے، بالکل اسی طرح اس روح کی پاکیزگی کے لئے ہدایت (روح، وحی) بھی ’’عالم امر‘‘ سے ہی نازل ہوئی۔ زمخشری نے شاید اسی لئے واضح کیا ہے کہ ’’روح سے مراد وحئ الہی ہے جو ان دلوں کو حیات بخشتی ہے، جو جہالت سے مردہ ہوچکے تھے۔‘‘یعنی روح (وحی) کی انسانی دل کے لئے وہی اہمیت ہے جو انسانی جسم کے لئے انسانی دل کی ہے۔ یہ بات نہایت ہی دلچسپ ہے کہ وحی لانے والے فرشتے کو بھی ’’روح الامین‘‘ کہا گیا۔ نزول وحی سے کس طرح انسانی دل کی حیات کا سامان کیا گیا، اس باپت قرآن کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفاء ہے۔ ‘‘(یونس ،۵۷)

ہم جانتے ہیں کہ نفس انسانی کی پاکیزگی کا یہ انتظام رمضان المبارک میں کیا گیا، اس لئے مؤمنین خدا کے اس فضل پر جتنا بھی خوشی منائیں وہ کم ہے۔ یہ خوشی منانے اور اس شادمانی کی رب تعالی نے اس طرح ترغیب دی ہے: ’’آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔‘‘ (یونس، ۵۸) پاکیزگی کے یہ اعمال، جن میں صیام (روزہ)، صبر، مواسات (ہمدردی) اور قیام لیل قابل ذکر ہیں، قدر کی رات کو اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس لئے نبی ؐ نے صیام اور قیام کرنے والے کی مغفرت کا اس طرح اعلان فرمایا ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ۔۔۔۔۔۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا ۔۔۔۔۔۔ اور جس نے لیلتہ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کر دیئے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں۔‘‘(متفق علیہ) یہی نہیں، بلکہ صیام اور قرآن بندے کے لئے شفارش بھی کرتے ہیں: ’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ کہتا ہے کہ اے رب، میں نے دن بھر اسے کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا، تو میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہتا ہے کہ (اے رب) میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ پس، دونوں کی شفاعت قبول فرما لی جائے گی۔‘‘ (بیہقی) تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو روزہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اور اسے غیر ضروری تصور کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں قیام لیل سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس لئے انہیں لیلتہ القدر کی خیروبرکت میں بھی کوئی حصہ نہیں ملتا۔ حدیث کی رو سے: ’’اور اس (رمضان) میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہ گیا وہ تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا۔ اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہ سکتا ہے جو ہے ہی محروم (بے نصیب)۔‘‘(ابن ماجہ)

لیلتہ القدر کی رحمت، برکت اور مغفرت کو سمیٹنے کے لئے رسول اللہؐ نے نہ صرف ترغیب دی ہے، بلکہ آپ ؐ اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؐاپنے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال کو اس کے لئے رمضان کے آخری عشرے میں کمر بستہ ہونے کے لئے حکم فرماتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت کے مطابق: ’’جب ماہِ رمضان آتا تو نبی ؐ بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے (یعنی نماز اور آرام دونوں کرتے) تھے۔ پس جب آخری عشرہ ہوتا تو اللہ پاک کی عبادت کے لئے کمر بستہ ہوجاتے۔‘‘ (مسند احمد) یعنی جس رب کو مغفرت فرمانا محبوب ہے، اسی رب نے اس ماہ کی یہ رات اس مقصد کے لئے مقرر فرماکر اس میں ہدایت اور مغفرت کا راستہ دکھانے کے لئے اپنا آخری ہدایت نامہ یعنی قرآن نازل فرمایا۔ ظاہر ہے کہ خدا کے ہر کام کے پیچھے ایک مقصد کار فرما ہوتا ہے۔ اس رات کے اس بڑے فیصلے کے مقصد عظیم کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے: ’’یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا۔ بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔ اس رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘‘ (الدخان، ۳-۴)

واضح ہوا کہ قرآن کے ذریعے انسانیت کی ہدایت ہی وہ مقصد عظیم ہے جس کے لئے اس کے نزول سے قبل، نزول کے دوران اور نزول کے بعد اس ہدایت نامے کی مکمل حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ’’باطل اس کے سامنے اور اس کے پیچھے (کسی طرف) سے بھی اس کے پاس نہیں آسکتا۔ (یہ قرآن) اس کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جو حکمت والا، تعریف کے لائق ہے۔‘‘(حٰم السجدہ، ۴۲) اگرچہ ہم اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے، لیکن لیلتہ القدر کا اعادہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تا ابد قرآن کی حفاظت کی جاتی رہے گی: ’’ہم ہی نے اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ (الحجر، ۹)
(مضمون نگار محکمۂ اعلیٰ تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
۔ ₹ 2.39کروڑ ملازمت گھوٹالے میںجائیداد قرق | وصول شدہ ₹ 75لاکھ روپے 17متاثرین میں تقسیم
جموں
’درخت بچاؤ، پانی بچاؤ‘مشن پر نیپال کا سائیکلسٹ امرناتھ یاترا میں شامل ہونے کی اجازت نہ مل سکی ،اگلے سال شامل ہونے کا عزم
خطہ چناب
یاترا قافلے میں شامل کار حادثے کا شکار، ڈرائیور سمیت 5افراد زخمی
خطہ چناب
قومی شاہراہ پر امرناتھ یاترا اور دیگر ٹریفک بلا خلل جاری
خطہ چناب

Related

کالممضامین

! دُنیا میںحقائق کو مٹانے کا بڑھتا ہوا رُجحان دنیائے عالم

July 9, 2025
کالممضامین

وادیٔ کشمیر میں امرناتھ یاترا کی دائمی روح| جہاں ایشورتاپہاڑوں سے کلام کرتی ہے آستھا و عقیدت

July 9, 2025
کالممضامین

! موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشیات کا نقصان

July 9, 2025
کالممضامین

دیہی جموں و کشمیر میں راستے کا حق | آسانی کے قوانین کی زوال پذیر صورت حال معلومات

July 9, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?