ایک جوابدہ ، شفاف اور ذمہ دار انتظامیہ کسی بھی اچھی حکمرانی کے ڈھانچے کی سنگ بنیاد قرار دیتے ہوئے جموںوکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے تمام انتظامی سیکریٹریوں سے کہا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر عوام سے بات کریں اور ہمدردی کے ساتھ ان کی شکایات کا ازالہ کریں۔لیفٹیننٹ گورنر گزشتہ روز سیول سیکریٹریٹ سرینگر میں تمام انتظامی سیکریٹریوں کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔لیفٹیننٹ گورنر نے زور دے کر کہا کہ افسران کو چاہئے کہ وہ ایڈہاک ازم کو ختم کریں اورعام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے درکار ضروری اقدامات کا تعین کریں۔انہوں نے افسران سے کہا کہ وہ لوگوں سے مربوط رابطے میں رہیں تاکہ حکومت کے ذریعہ کیے گئے عوام دوست اقدامات کا زیادہ سے زیادہ فائدہ عام آدمی تک پہنچ سکے۔لیفٹیننٹ گورنر نے موجود کووڈ صورتحال میں حکومتی اقدامات کو اطمینان بخش قرار دیا اور کہا کہ صحت کے ڈھانچہ کو کافی حد تک اپ گریڈ کیاگیا تاہم انہوںنے مختلف محکموں کے قریبی تال میل کا ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک عوام زمینی سطح پر فرق محسوس نہ کریں ،اُس وقت تک حکومتی اقدامات بے سود ہی ہیں۔منوج سنہا کی سبھی باتیں ایک بہتر اور جوابدہ حکمرانی کے ڈھانچے کو استوار کرنے کیلئے کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شفاف اور جوابدہ انتظامیہ ہی اچھی حکمرانی کے ڈھانچے کی سنگ بنیاد ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ منوج سنہا بار بار حکومتی مشینری سے جڑے لوگوں کو اپنے آپ میں جوابدہی کا عنصر پیدا کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ جب تک انتظامی مشینری میں جوابدہی کا عنصر پیدا نہیں ہوتا ہے ،عوامی مسائل کا نپٹا را ممکن نہیں ہے ۔آج تک ہم نے دیکھا کہ سیکریٹریٹ میں بیٹھے لوگوں کا زمین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا اور عوام کی تقدیر کے فیصلے سیکریٹریٹ کے بند کمروںمیں بیٹھ کر کئے جاتے تھے تاہم اب یہ روش تبدیل ہورہی ہے اور اب انتظامیہ ہی لوگوں کی دہلیز پر پہنچ رہی ہے ۔لیفٹیننٹ گورنر کے صلاح کاروں سے لیکر انتظامی سیکریٹری اور محکموں کے ناظم جس طر ح آئے روز گائوں دیہات میں جاکر لوگوں کے مسائل کی شنوائی کررہے ہیں ،اُس سے عوام اور حکومت کے درمیان تعلق مستحکم ہونے لگا ہے ورنہ یہاں حکمرانی کے ڈھانچے اور عوام کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا ہوگئی تھی جس کو پاٹنا مشکل لگ رہا تھا تاہم موجودہ لیفٹیننٹ گورنر کے دور میں معاملات بدل رہے ہیں اور ترجیحات بتدریج تبدیل ہورہی ہیں۔ایسا نہیںہے کہ حکومت کچھ نہیں کررہی ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تومحدود وسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت بہت کچھ کررہی ہے لیکن حکومتی اقدامات نظر نہیں آرہے تھے اور عوام کو لگ رہا تھا کہ حکومت کچھ نہیں کررہی ہے لیکن اب جس طرح عوام کوفیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیاجارہارہا ہے اور لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ ہی ترقیاتی منصوبوں سے متعلق فیصلے لئے جاتے ہیں تو عوا م کی وہ شکایت کافی حد تک دور ہوگئی ہے کہ ان کے فیصلے اُن سے پوچھے بغیر ہی کئے جاتے ہیں تاہم اب بھی مسائل موجود ہیں۔اگر انتظامی مشینری یہ کہہ کہ سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے تو وہ بجا نہیں ہوگا بلکہ یقینی طور پر اب بھی بہت سارے مسائل حل طلب ہیں اور یہ مسائل صرف اُسی صورت میں حل ہوسکتے ہیں جب انتظامی مشینری سے جڑے سبھی لوگوں میں جوابدہی کا احساس جاگزیں ہوجائے ۔پنچایتی راج نظام سے بہت کچھ بدل چکا ہے اور گائوں دیہات کے لوگ اب اپنے آپ کو کسی حد تک بااختیار محسوس کررہے ہیں لیکن جس طرح پنچایتی راج نظام کے دو ٹائروں میں ٹکرائو کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ،وہ خوش کن نہیں ہے ۔بی ڈ ی سی اور ڈی ڈی سی اس نظام کے اہم کل پرزے ہیں اور ان کے درمیان ٹکرائو قطعی طور اس نظام کیلئے بالعموم اور پورے جموںوکشمیر کے ترقیاتی منظر نامہ کیلئے بالخصوص کوئی اچھی خبر نہیںہے ۔لیفٹیننٹ گورنر جہاں انتظامی سطح پر جوابدہی پر زور دے رہے ہیں وہیں پنچایتی نظام میں موجود اس مخاصمت کے ماحول کو بھی ایڈرس کرنا ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پنچایتی راج ایکٹ کی رو سے سبھی متعلقین کے اختیارات واضح کئے جائیں تاکہ کوئی کسی کے اختیارات پر قابض نہ ہو اور سبھی مل جل کر کام کریں جس کے نتیجہ میں ترقی و خوشحالی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔اسی طرح سیکریٹریٹ سے باہر سرکاری محکموں میں جتنے بھی ملازمین ہیں ،اُنہیں بھی جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کا براہ راست سابقہ زیادہ تر انہی ملازمین کے ساتھ پڑتا ہے۔اگر نچلی سطح پر حکمرانی کے ڈھانچہ میں شفافیت اور جوابدہی کا عنصر پیدا کیاجاتا ہے تو انقلابی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہے ۔بلا شبہ تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف آنی چاہئے کیونکہ جب اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں جوابدہی اور شفافیت پیدا ہوجائے تو اس کا براہ راست اثر نچلی سطح پر پڑنا لازمی ہے تاہم لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ پوری سرکاری مشینری میں ورک کلچر کو فروغ دیکر شفافیت اور جوابدہی کو اپنی انفرادیت بنائے کیونکہ جب یہ جز انتظامی مشینری پر غالب آجائیں گے تو انتظامی مشینری کا پٹری پر لوٹ آنا طے ہے اوراگر انتظامی مشینری میں ان عناصرکا فقدان ہی رہے تو لیفٹیننٹ گورنر لاکھ کوششیں کریں ،زمینی سطح پر کچھ زیادہ بدلنے والا نہیںہے ۔اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ لیفٹیننٹ گورنر نے کل کے اجلاس میں انتظامی سیکریٹریوںکو جو وعظ و نصیحت کی ،وہ نہ صرف خود اس پر عمل کریں گے بلکہ نچلی سطح تک اس ماڈل کولے جائیں گے تاکہ مطلوبہ اہداف حاصل کئے جاسکیں۔