سرینگر// سرکاری محکموں کی طرف سے ٹیکسوںکی حوصولیابی اور مالیات سے کمتر احاطہ کرنے کی پاداش میں200کروڑ سے زائد رقم کی آمدن کے خسارے کا انکشاف کرتے ہوئے کمپٹولراینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ3لاکھ80ہزار کے قریب اور لوڈ مال بردار گاڑیوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس کی وجہ سے خزانہ عامرہ کو114کروڑروپے کا نقصان ہوا۔کیگ رپورٹ میںٹول پوسٹ لکھنپور سے کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے،جبکہ متعلقہ افسران کے بیان کو نا تسلی بخش قرار دیا گیا۔ ٹیکسوں کی حوصولیابی پر کئے گئے آڈٹ کے دوران کئی سنسنی خیز اور چونکا دینے والے انکشافات ہوئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس،ریاستی ایکسائز ،موٹر وہیکل ڈیپارٹمنٹ ااور اسٹیمپ ڈیوٹی و رجسٹریشن کے66اکائیوں کے ریکارڈکی جانچ کی گئی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 2015-16 کے دوران ٹیکسوں میں کمی اور اشیاء کے تعین مالیات سے کمتر احاطہ کرنے کی پاداش میں635کیسوں میں مجموعی طور پر208کروڑ71لاکھ روپے کی آمدنی کا خسارہ ہوا۔رپورٹ میں تفصیلات دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تجارت پر ویٹ کے حوالے سے اشیاء کو مقرہ معیار سے کم احاطہ کرنے کے زمرے میں 12کروڑ 10لاکھ، خریدو وفروخت میں نگرانی میں کوتاہی کی وجہ سے ٹیکس چوری میں 10کروڑ 89لاکھ،خریداری کے کریڈٹ الائو نس میں بے ترتیبی کی وجہ سے ایک کروڑ31لاکھ،آمدنی کے بقایاجات کی وصولیابی کے نظام سے85کروڑ24لاکھ اور دیگر غیر منظم طریقوں کی وجہ سے22کروڑ26لاکھ روپے کی آمدنی کا خسارہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکسائز کے71کیسوں کی جانچ کی گئی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لائسنز فیس و سود کے علاوہ جرمانے کی مد میں17کروڑ23لاکھ،ٹال ٹیکس کی وصولیابی کی مد میں35کروڑ35لاکھ اور دیگر متفرقات میں62ہزار روپے کی آمدنی کا خسارہ دیکھنے کو ملا جبکہ ایکسائز ڈیوٹی میں کمی یا عدم وصولیابی میں6کروڑ6لاکھ روپے کی آمدنی کا خسارہ ہوا ہے۔رپورٹ میں ٹوکن ٹیکس اور مجموعی فیس کے علاوہ پسنجر و گڈس ٹیکس کے مد میں8کروڑ92لاکھ اور اسٹیمپ ڈیوٹی و رجسٹریشن کے حوالے سے جائیداد میں تعین کی گئی حد سے کم ٹیکس کی وصولیابی میں25لاکھ روپے کی آمدنی میں خسارہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اکتوبر2008میں محکمانہ سطح پر ہدایت دی گئی کہ تمام اور لوڈمال بردار گاڑیوں کو ٹول پوسٹوں پر روک کر موٹر وہیکل ڈیپارٹمنٹ منتقل کیا جائے،تاکہ وہاں ضافی لوڈ کو اتارا جائے،تاہم ریکارڑ سے پتہ چلتا ہے کہ ریلوے اسٹیشن جموں اور دیگر5پوسٹوں پر3لاکھ81ہزار775 اور لوڈ گاڑیوں کو موٹر وہیکل ڈیپارٹمنٹ منتقل نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے خزانہ کو114کروڑ53لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ٹی پی لکھنپور میں 2011سے2015تک چیف آرٹیکل اسٹیمنٹ کی جانچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ متعلقہ ٹول افسران نے صنعتی یونیٹوں کے2لاکھ75ہزار598کوئنٹل کی اشیاء،جس میں سی آر کوئلز،پیکنگ میٹریل،مصالحہ جات،پلائی ووڈ،اسٹیم کول،جی سی شیٹس بھی شامل ہیں،کو ٹول ٹیکس سے مستثنیٰ رکھی گئی اشیاء کے زمرے میں شامل کر کے لے جانے کی اجازت دی جس سے خزانہ کو ایک کروڑ63لاکھ روپے کا نقصان ہوا،جبکہ یہ چیزیں منفی فہرست میں شامل تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قوانین کے مطابق3فیصد شرح کے حساب سے ایک کروڑ58لاکھ روپے کا سود بھی واجب تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی ایکسائز کمشنر لکھنپورنے اس اشیاء کو ارسال کرنے والوں یا صنعتی یونیٹوں تک پہنچائے جانے والوں کے نام کو بھی درج نہیں کیا ،جس کی وجہ سے آڈیٹ کے دوران ان صنعتی یونیٹوں کی نشاندہی نہیں ہوسکی جہاں پر یہ مال لے جایا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکسائز کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ یہ اشیاء ٹول ٹیکس سے مستثنیٰ ہے،تاہم انکا جواب نا تسلی بخش تھا،کیونکہ یہ اشیاء منفی فہرست میں شامل ہیں۔ 2011سے2015تک کے رپورٹ میںاس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ2004میں سرکار کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ کھانے پکانے کا تیل اور دیگر قسم کے تیل،جو کہ محکمہ صنعت و حرفت میں درج شدہ صنعتی یونٹوں کو درآمد ہونگے،پر ٹول ٹیکس عائد کیا جائے گا،تاہم تیل کے بیچوں کو مستثنیٰ رکھا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران ٹی پی پوسٹ لکھنپور سے2لاکھ3ہزار950کوئنٹل غیر کھانے پکانے کا تیل کو2011سے2015تک غیر قانونی طورپر صنعتی یونٹوں کو درآمد ہوا،جس سے ایک کروڑ21لاکھ روپے کا ٹول ٹیکس اور ایک کروڑ19لاکھ روپے کا سود حاصل نہیں ہوا۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹول پوسٹ لکھنپور کے حساب جات کی جانچ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ48لاکھ86ہزار337کوینٹل کی متفرقات اشیاء کو ٹول ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا جس سے آمدنی میں29کروڑ74لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔کیگ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مقرہ شرائط کی عدم تعمیل سے35کروڑ35لاکھ روپے ٹول ٹیکس میں کمی آئی جبکہ اندرونی نظام اور ضوابط میں افادیت کی غیر فعالی کی وجہ سے متحرک طور پر ٹو ل ٹیکس کی نگرانی اور وصولیابی ،سستی کی نظر چڑ گئی۔