گزشتہ دنوں بنگلو ر میں چھپن سالہ سرکردہ خاتون صحافی اور سماجی کارکن محترمہ گوری لنکیش کو تین مسلح قاتلوں نے اپنے گھر میں گولی مارکر ہتھیا کی۔ یہ ایک بہت افسوس ناک سانحہ ہے ۔مقتولہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ آزاد خیال تھیں اور ہندوانتہا پسندی اور ذات پات کے نظام پر کڑی تنقید یں کر نے میں کافی بے با ک تھیں ، اس لئے ان کا قتل ایک سیاسی نظریے کا قتل مانا جاتا ہے ۔پچھلے سال بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف اپنی کسی تحریر کی پاداش میں وہ ہتک ِعزت کے مقدمے میں ماخوزذ بھی قرار پائی تھیں۔ اگرچہ گوری کے مخالفین ان پر ہندوازم سے منافرت پھیلانے کا الزام لگاتے رہے مگر وہ اپنے خیالات کو بلا کم وکاست پیش کر نا اپنی آئینی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔ پریس کلب اف انڈیا نے اس قتل کی مذمت کر تے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ خاتون صحافی کو اپنی تحریرات کی قیمت چکانا پڑی ۔ اگست ۲۰۱۵ء میں ایک اور ترقی پسند و آزادخیال ماہر تعلیم اور سابق وائس چانسلر پر وفیسر ایم ایم کلبرگی کو گھر میں گولی مار کر قتل کیا گیا ۔ ان کو قتل کر نے سے قبل مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے کافی دھمکیاں ملی تھیں ۔ اس نوع کے سانحات نہ صرف آزادی ٔ اظہار پر قدغن لگانے کے مترادف ہیں بلکہ ان سے عصر حاضر میں قلم اور تلوار کی باہمی کشاکش ایک اَنمٹ اوراٹل حقیقت بن کر سامنے آتی ہے۔ سقراط اور گلیلیو سے لے کر آج تک زمانے کے جہل ِمرکب نے ہمیشہ تیز دھار خنجربن کر قلم کی حق بیانی روکنے کا رقص نیم بسمل کیا، خیال کی اُڑان کو پر بریدہ کیا اور سوچ کے دروازے پر پہرے بٹھانے کی ناکام کوششیں کیں۔ اتناہی نہیںبلکہ قلم اور تلوار کی ا س محاذآرائی میں تکبر کے توپ وتفنگ نے ہمیشہ ہی علم و بصیرت کو مات دینے کے لئے صدق ودانش کی بے آبروئی کی تاکہ سچ کی قندیلیں بجھ جائیں۔ تاریخ جہاں اس جبریت کی جھلکیاں دکھا تی ہے ، وہاں یہ ان معجز ات کی بھی گواہ ہے کہ قلم اور تلوار کے اس ابدی معر کے میں ہمیشہ قلم کی حق بیانی نے اپنی فتح ونصرت کا ڈنکابجا کر دم لیا۔اسے ہم عقل وشعورکا اعجاز کہیں یاعلم کا اُجالا سمجھیں ، امرواقع یہ ہے کہ ہر دور میں قلم کا یہ خاصا رہا کہ یہ لاکھ دبائے نہ دبا۔ بایں ہمہ اصولاًانسان کا قلم قدرت کا الہام وکشف نہیں کہ اس میں بھول چوک کا عمل دخل نہ ہو بلکہ جس طرح انسان فکر کی شاہراہ پر آبلہ پائی کرتے ہوئے بشریت کے سبب ٹھوکریں کھا سکتا ہے ،اسی طرح کسی انسان کاقلم یاکلام بھی کہیںدانستہ کہیںنادانستہ فکری تسامحات کا مر تکب ہوسکتا ہے، قلم کے فتوؤں پر جانے انجا نے صاحب ِ قلم کی ذاتی پسند وناپسند کی چھاپ بھی پڑ سکتی ہے ، اس سے لغزشیں ، دل آزاریاں، بے ا حتیاطیاں اور اجتہادی غلطیاںبھی سرزدہو سکتی ہیں، یہ کسی واقعے یا نفس ِمضمون کو مخصوص عینک سے دیکھ کر غلط نتائج اخذ کر نے کا گناہ بھی اپنے دامن میں سمیٹ سکتا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کسی عیاں وبیاں حقیقت کی من پسند توجیہ وتاویل کرکے سچائی کا گلا بھی گھونٹ سکتا ہے، تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں قلم کے تقدس کو پامال کیا جا ئے ، اس کی عظمت کا لوہا ماننے سے انکار کیا جائے ،ا سے کسی تلوار کے سامنے سرنگوں کرنے کے لئے دھمکیوں اور دھونس کا سہار ا لیا جائے۔ یہ بھی کوئی مردانگی ہوئی کہ تلوار تشدد اورتخریب کے دفاع میں زمانے کے کسی سقراط کا منہ بند کرنے کیلئے اس کے سامنے زہر کا پیالہ پیش کر ے یا اہل ِکلیسا کی تقلید میں کوئی وقت کے گلیلیو کو بزور بازوجہل وناخواندگی کے تراشیدہ عقیدے قبول کر نے پر مجبور کر ے؟ عقل ودانش کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی مستنددانش ور اور قلم کارکے ساتھ کسی بھی معاملے پر اختلاف ِ رائے پیدا ہو جائے، اس کے کسی خیال وبیان سے کسی مکتب فکر کی دل آزاری محسوس ہوتی ہو ، اس کے دلائل پر عدم اطمینان ہو ، اس سے غلط فہمیوں کے ازالے کی نیت سے کسی ایک نکتے پر وضاحت طلبی کی ضرورت ہو یا وقت کے تیکھے سوالوں اور سلگتے مسائل کا جواب اس سے مانگنا مقصود ہو تو فہم وفراست، تہذیب و شرافت اور سنجیدہ علمی مباحثے کے دائرے میں رہ کر اختلاف کرنے والے سے اپنا نقطہ نظر منوانے کے لئے صرف دلائل وبراہین سے کام لینا شرط ِاول ہے۔ اگر فریق مخالف سچے معنوں میں علم ودانش کا بے لوث خادم ہوا تووہ لازماً قلم کی حرمت کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے تعصب اور ہٹ دھر می سے نہیں بلکہ ملائمت و ندامت کے ساتھ بلا جھجھک اپنے خیال کی کمزوری اورسوچ کی کجی کا اعتراف کر ے گا یا اپنے عندیے کے حق میں مزید دلیلیں دے کر فریق مخالف کو قائل کرنے کی کوشش کر ے گا۔ اس متوازن طرز عمل سے طرفین میں بدمزگی اور کڑوا ہٹ کی بجا ئے افہام وتفہیم کی صحت مند صورت نکل کر بالآخر سلجھاؤ کی راہیں استوار ہو تی ہیں۔ عصر رواں میں جہاں قلم کی عفت قائم ودائم رکھنے کے واسطے اقوام عالم میںآزادی ٔ اظہار کے عنوان سے کئی ایک تابندہ مثالیں قائم ہوچکی ہیں، وہیں ایک جانب اس آزادی کی آڑ میں قلم کا ناجائز وغلط استعمال بھی ہوا، اور دوسری جانب قلمی آزادی کے مخالفین نے قلم کی مشروط آزادی پر احمقانہ پابندیو ں کی بیڑیاں پہنا دیں۔ یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ سیاسی مناظرہ بازی اور مباحثوںمیں اکثر وبیشتر طاقت ور فریق اپنے ناقدین و مخالفین کے درپے آزار ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ گوری لنکیش اسی صورت حال کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں ۔ ہم اپنی بات کریں تو وادی ٔکشمیر کو جہاںگزشتہ ستائیس سال سے مسلسل سیاسی ہلچل کے باعث نامساعد حالات پائے جاتے ہیں اور ان کے زیر سایہ مختلف پیرائیوں میں نہ صرف وقت کی بالادست قوتوں کا رعب ودبدبہ قلم اورعلم ودانش پر وقتاًفوقتاًحاوی ہوتا رہا بلکہ گھٹن بھرے ماحول میں کشمیر نے بہت سارے مایہ ناز دانش وروںا ور قلم کاروں کو بھی ہمیشہ کے لئے کھو دیا۔ ان میں سے بعض ایک کو جان سے مارا گیا، کئی ایک کو راندۂ درگاہ ٹھہرا کر ان کے قلم پرپہرے بٹھائے گئے ، بعضوں پر ڈرا دھمکا کر خاموشی کے تالے چڑھائے گئے۔ برس ہا بر س تک اخبارات کو بھی خصوصی طور یہ ناقابل ِبیان درد وکرب چار وناچار سہنا پڑا۔ عصری تاریخ کے ا ن تند وتلخ حقائق سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ شورش زدہ خطے میں قلم اور کیمرے کو مختلف الاطراف دباؤ سے جوجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کر نا پڑ ا۔ امر واقع یہ ہے کہ آج بھی صحافی جب کسی جھڑپ عوامی مظاہرے اور احتجاج کی تصویر کشی کی ذمہ داری نبھا نے کے لئے میدان میں آتے ہیں تو بارہا حالات کی پہلی مار انہی پر پڑتی ہے۔ اس طرح کے متعددواقعات کے لوگ بھی عینی گواہ ہیں اور عصری تاریخ بھی ان کی آئینہ دار ہے۔ بہرحال قلم چونکہ ایک کلیدی اہمیت کا حامل اعزاز اور ایک قومی امانت ہے ، اس لئے اس کا جائز استعمال کرنے میں افراط وتفریط سے گریزاں ہو نا از بس ضروری ہے۔ نیز قلم کے ہربے لوث سپاہی کو متانت اور وقار کے ساتھ اپنے اس اعزاز کا حق اد اکر نا ہو گا، چاہے حالات موافق ہوں یا ناموافق۔ قانون مکافات عمل یہ بتاتا ہے کہ مقتولہ گوری لنکیش کو آج نہیں تو کل انصاف ملے گا ۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی ۔ بقول غالبؔ
لکھتے رہے جنوں میںحکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے