Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
گوشہ خواتین

لڑکیوں کے ساتھ ہی امتیازی سلوک کیوں؟ نالہ و فریاد

Mir Ajaz
Last updated: August 31, 2023 2:51 am
Mir Ajaz
Share
9 Min Read
SHARE
یوگیتا آریہ
ہندوستان میں ہر بچے کو اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کا پورا موقع ملنے کا حق ہے۔ لیکن آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی ملک میں صنفی عدم مساوات کا تصور اب بھی موجود ہے۔ اس کے پیچھے صدیوں سے چلی آرہی سماجی برائیاں اور تنگ ذہن ہی بنیادی وجہ ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کو مواقع نہیں مل پاتے ہیں۔ صنفی امتیاز ہندوستان میں ہر جگہ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان واضح طور پر نظر آتا ہے ، نہ صرف ان کے گھروں بلکہ برادریوں میں بھی ہے۔ یہ عدم مساوات خاص طور پر ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں مضبوطی سے پیوست ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کو اپنی صلاحیت کے مطابق کارکردگی کا موقع نہیں ملتا ہے۔ تاہم، ہریانہ اور شمال مشرق کی کچھ ایسی ریاستیں ہیں جہاں دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اولمپکس جیسے بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کا نام روشن کیا۔ لیکن ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں تنگ نظری کی وجہ سے لڑکیوں کو ایسا موقع نہیں ملتا ہے۔ایسی ہی ایک مثال پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گروڈ بلاک کے چورسو گاؤں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ درج فہرست ذات والے اس گاؤں کی کل آبادی 3584 ہے اور شرح خواندگی تقریباً 75 فیصد ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کی نوعمر لڑکیوں کو صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے دسویں جماعت کی طالبہ ونیتا آریہ کا کہنا ہے کہ ’ہم لڑکیوں کو کسی نہ کسی طرح بارہویں جماعت تک پڑھایا جاتا ہے، لیکن ہمیں برابر کے مواقع نہیں ملتے ہیں۔ وہ شادی تک یہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ لیکن جب لڑکوں کی بات آتی ہے تو والدین ان کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنی زمین بیچنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ لڑکیوں کو مساوات کا حق کہاں ملا؟‘ دوسری جانب گاؤں کی 45 سالہ خاتون رجنی دیوی کا کہنا ہے کہ ’پہلے کے مقابلے گاؤں کے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ کچھ پڑھے لکھے اور باشعور والدین لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں تعلیم دے رہے ہیں۔ تاہم جہاں لڑکوں کی تعلیم کے لیے 100 فیصد کوششیں کی جاتی ہیں وہیں لڑکیوں کے لیے ان کی کوششیں نسبتاً کم ہیں۔ یہ ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس کے دونوں بھائیوں کو بارہویں جماعت تک تعلیم دی گئی، جب کہ بہنوں کی شادی آٹھویں جماعت کے بعد ہی کر دی گئی۔
وہیں 66 سالہ رکمنی کا کہنا ہے کہ ’اب معاشرے کی سوچ بدلنا شروع ہو گئی ہے۔ پہلے کے مقابلے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان امتیاز کم ہونے لگا ہے۔ اس میں حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ اسکیم کا کافی اثر ہو رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے لڑکیوں کی ترقی کے لیے دی جانے والی اسکیموں اور سہولیات کو بڑے پیمانے پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت نے 12ویں تک کتابیں بھی مفت کر دی ہیں، ڈریس کے پیسے مل رہے ہیں، مختلف قسم کے وظائف فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جو لڑکیوں کی تعلیم میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن پھر بھی میں نہیں سمجھتی کہ لڑکیوں اور خواتین کو ابھی بھی مکمل مساوی حقوق مل رہے ہیں۔ جہاں ایک عورت دن بھر مزدوری کرتی ہے تواسے 300 روپے ملتے ہیں جب کہ ایک مرد کو اسی کام کے 500 روپے ملتے ہیں۔‘‘گاؤں کی ایک آنگن واڑی ورکر 46 سالہ آمنہ کہتی ہیں کہ ’’جب سے میں نے آنگن واڑی میں کام کرنا شروع کیا ہے، میں بہت سے لوگوں سے ملتی رہتی ہوں۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ حقیقت میں لڑکیوں کو بھی معاشرے میں مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ آئین نے سب کو یکساں حقوق دیئے ہیں۔ حکومت نے صنفی عدم مساوات کو دور کرنے اور خواتین کو خود انحصار بنانے کے لیے بہت سی اسکیمیں بھی شروع کی ہیں۔ لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی والدین لڑکیوں کی شادی کا عمل بارہویں سے شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن لڑکوں کے لیے وہ 25 سے 27 سال میں ہی شادی کی بات کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ لڑکے کم عمری میں گھر کی ذمہ داری نہیں اٹھا پاتے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایک لڑکی 17 یا 18 سال کی عمر میں پورے گھر کی ذمہ داری کیسے سنبھال سکتی ہے؟‘‘
اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ’’یہ سچ ہے کہ آج بھی دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو شہروں کے مقابلے میں مساوی مواقع نہیں ملتے ہیں۔ وہ بوجھ کے طور سمجھی جاتی ہیں۔ دو کے بعد تیسری بیٹی ہو تو عورت کی زندگی مشکل کر دی جاتی ہے۔ لڑکوں کی خواہش میں لڑکیوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ اگر حقیقت میں لڑکیوں کو برابری کا درجہ حاصل ہوتا تو یہ سب چیزیں معاشرے میں بہت پہلے ختم ہو چکی ہوتیں۔ لوگ خود کو پڑھا لکھا اور خود مختار کہنے کے بعد بھی لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ اگر ہم خواتین کی بات کریں تو شادی کے بعد بھی اسے اپنے خاندان میں مساوی مواقع اور حقوق نہیں ملتے۔ خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد بھی اسے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ اگر لڑکا سارا دن گھر سے غائب رہے تو کوئی اس سے سوال نہیں کرتا لیکن اگر کوئی لڑکی نوکری یا کالج کی وجہ سے شام کو دیر سے گھر لوٹے تو اس پر سوالوں کی جھاڑیاں لگ جاتی ہیں۔آس پاس کے لوگ غلط باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ والدین کو اس قدر ذہنی طور پر پریشان کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی پر پابندیاں لگانی شروع کر دیتے ہیں۔‘‘درحقیقت لڑکیوں کو اب بھی وہ مساوی مواقع نہیں مل رہے جن کی وہ حقدار ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لڑکی کی عصمت دری ہوتی ہے تو دنیا اس کے کردار پر سوال اٹھاتی ہے۔ متاثرہ لڑکی کا ساتھ دینے کے بجائے اسے ملزم بنایا جاتا ہے۔ وہ ذہنی اذیت کا شکارہو جاتی ہے۔ جبکہ خاندان ریپ کرنے والے لڑکے کو بچانے کے لیے اپنی جائیداد بھی بیچنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ معاشرہ بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار ہوتاہے۔لڑکی کے کردار پر سوال اٹھانے والا وہی سماج لڑکے کو نادان اور بے قصور تسلیم کرتا ہے۔یہ سماج کی تنگ نظری نہیں تو اور کیا ہے؟ شادی کے بعد جب لڑکی ماں بن جاتی ہے تو بچے کی ساری ذمہ داری،تہذیب اور رسومات کی پرورش، سب کچھ اسی پر ڈال دیا جاتا ہے۔ سماج یہ کہہ کر مرد کو بڑی کر دیتا ہے کہ یہ کام ماں کا ہے۔میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ایک بچے کی پیدائیش میں جب مرد کا بھی برابر کا کردار ہوتا ہے تو اس بچے کی پروریش کا ذمہ صرف عورت پر ہی کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ ایسی صورتحال میں برابری کی بات بے معنی معلوم ہوتی ہے۔ درحقیقت دیہی علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان امتیاز اور صنفی عدم مساوات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بیداری کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ (چرخہ فیچر)
پتہ۔چورساؤ، اتراکھنڈ
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ہندوستان نے امن کی بحالی کے لئے بڑے بھائی کا رول نبھایا: الطاف کالو
تازہ ترین
جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کے بعد جموں وکشمیر کے سرحد خاموش، بازاروں میں گہماگہمی
تازہ ترین
ہندوستان جنگ نہیں چاہتا لیکن ملی ٹینسی کے بنیادی ڈھانچے پر کارروائی ضروری تھی: ڈوبھال
برصغیر
اب کشمیر معاملے کوحل کے لیے کام کروں گا: ٹرمپ
برصغیر

Related

گوشہ خواتین

عصر ِ حاضر کا انسان، حقیقت یا دکھاوا؟ قسط۔۲

May 7, 2025
گوشہ خواتین

باپ کا سایہ ۔رحمت کی چادر ہے فکروادراک

May 7, 2025
گوشہ خواتین

خاندان کی تربیت میںخواتین کا کردار معلوماتی مطالعہ

May 7, 2025
گوشہ خواتین

خواتین اپنا وقار دُنیا کے سامنے لائیں فکر انگیز

April 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?