پرائمری سطح پر 4فیصد،سیکنڈری سطح پر شرح9.07تک پہنچ گئی
پرویز احمد
سرینگر // جموں و کشمیر میںلڑکیوں کی تعلیم ترک کرنے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ہوارہا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سرکار کی’ بیٹی پڑھائو مہم‘ ناکام ہوتا دکھائی دے رہی ہے۔ سال 2018سے 2022کے درمیان اگر چہ لڑکیوں کے تعلیم چھوڑنے کے رجحان میں کمی آئی لیکن سال 2022-23اور سال 2023-24میں اس میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ سال 2022-23میںپرائمری سطح پر تعلیم ترک کرنے والی لڑکیوں کی شرح 2.65فیصد تھی جو سال2023-24میں بڑھ4.23ہوگئی ہے ۔ اس دوران سیکنڈری سکول کی سطح پر تعلیم چھوڑنے والی لڑکیوں کی شرح 6.20فیصد تھی جو سال 2023-24میں بڑھ کر 9.07فیصد ہوگئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سال 2021-22میں سیکنڈری سکول سطح پر تعلیم ترک کرنے والی لڑکیوں کی شرح 6.3فیصد تھی جو سال 2019-20سے 18.6فیصد کم تھی۔ سال 2021-22میں پھر سے اضافہ 4.6فیصدکا ہوا۔ بنیادی سطح کی تعلیم میں سال 2018-19میں لڑکیوں کی تعلیم ترک کرنے میں 6.9فیصد کی کمی ہوئی تھی جبکہ سال 2021-22میں اس میں مزید 3.8فیصد کی کمی آئی ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میںسال 2022-23میں پرائمری سطح پر تعلیم ترک کرنے والے لڑکیوں کی شرح 3.89 تھی جو سال 2023-24میں بڑھ کر 8.87فیصد ہوگئی ہے۔ سال 2022-23 میںمڈل سکول کی سطح پر تعلیم ترک کرنے والی لڑکیوں کی شرح 2.65فیصد تھی کو سال 2023-24میں بڑھ کر 4.23فیصد ہوگئی ہے۔ اس دوران سیکنڈری سطح پر سال 2022-23کے دوران تعلیم ترک کرنے والی لڑکیوں کی شرح 6.20فیصد تھی جو بڑھ کر 9.07فیصد ہوگئی ہے۔یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس کے مطابق جموں و کشمیر میں سال 2018سے 2022تک لڑکیوں کی جانب سے تعلیم ترک کرنے کی شرح 6.9،5.8، 4.2اور3.8تھی لیکن اب اس میں پھر سے بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان ہی برسوں میں سیکنڈری سکولوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کی تعلیم ترک کرنے کی شرح 17.7، 18.6، 4.6اور 6.3تھی لیکن اب اس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اس دوران مرکزی محکمہ تعلیم و خواندگی نے جموں و کشمیر میں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے کئی سکیمیں بھی شروع کی ہیں جن میں سمگرا شکشھا ابھیا،تمام ریاستوں کو ہمسائیگی میں لڑکیوں کیلئے سکول کھولنا، 8ویں جماعت تک لڑکیوں کو وردی اور نصابی کتابیں مفت فراہم کرنا،ذاتی تحفظ کی تربیت، مخصوص صلاحیت کی حامل لڑکیوں کو سکالر شب اورمختلف ہنروں کی تربیت کے علاوہ جانکاری پروگراموں کا انعقاد بھی شامل ہے لیکن اس سب کوششوں کا کوئی مثبت اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔