عبدالصمد۔مہاراشٹر
آجکل ملک کے اخبارات میں مسلم لڑکیوں کاغیرمسلم لڑکوں سے شادی کرنےکےتعلق سےفکرانگیزمضامین شایع ہورہےہیں ۔ اسطرح کی خبریںکسی بھی ایمان والےکے لئےذہنی تکلیف دہ ،اورفکرکرنےوالی بات ہے۔قطع نظراس سےکہ اسکا تناسب کیاہے۔ ایک مسلمان لڑکی جب اپنےخاندانی ماحول میں پلتی ہے، بڑی ہوتی ہے،اس پرگھر،خاندان ،محلہ اورمعاشرہ کےمذہبی اوردینی رسم ورواج ،عبادات جیسےماحول کااثرہوتاہے۔ایسے ماحول میں اتنےغیرمعمولی اثرات ہونےکےبعدیہ بات بعیدازقیاس لگتی ہےکہ کوئی لڑکی اپنےماحول سےبغاوت کرکےدوسرا راستہ اپنائےگی ۔دنیامیں اپنی زندگی کومصیبت بنائےگی۔ ان سب کےباوجودایک آدھ معاملہ ہوبھی سکتاہےلیکن اس طرح کےجوواقعات ہورہےہیں ،اسکی وجہ یہ ہےکہ مسلم لڑکیوں کوجسطرح کامذہبی ماحول اسکےوالدین سے،اس کےگھرسے،خاندان سے،معاشرہ سےملانہیں۔ کیوں کہ بچوں کی پرورش میں سب سےزیادہ اثرات والدین اورخاندان ہی کےہوتےہیں، گھرکےماحول کاچونکہ کردار میں بہت بڑاہاتھ ہوتاہے،ان سب کےباوجودبھی بچیاں مرتدہورہی ہے تویہ باہر کےماحول کےاثرات کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ ارتدادکاصحیح معنی یہ ہےکہ کوئی شخص اسلام میں داخل ہونےکےبعدپھرپلٹ جائے، بہرحال اسلام میں عورتوں کاجودرجہ ہے،جوتحفظات ہیں، اس کاعلم ہونےکےبعداپنےدین ومذہب سےبغاوت کرکےاسطرح کااقدام کاسوال ہی نہیں پیداہوتا۔ جسکےدل میں ایمان کی ذرابھی چنگاری باقی ہے،وہ اسطرح کااقدام نہیں کرسکتی۔ ہاں! دین مذہب ایمان اورعبادتوں سےکوسوں دورملحدانہ افکا ر خاندانی ماحول پرغیراسلامی رسم ورواج کاغلبہ ،مرد وزن کاآزادانہ اختلات ،مخلوط تعلیمی ماحول ،گھروں کاتھیٹربن جانا،گھریلو اورعام تقریبات میں بےپردگی کاعام ہوجانا،جہاںمال ودولت کی فراوانی یاتنگدستی ہو،وہاں غیراسلامی شعارکوبطورفیشن یامجبوری کےاپنانےمیں کوئی قباحت محسوس نہ کرنا،اوروالدین کااپنی اولادکی صرف دنیابنانےپرتوجہ مرکوزکرنا ،ان سب کےنتایج تویہی نکلناہے۔شرعی احکام کی مرضی کےمطابق تاویلات بھی اس خرابی کی جڑہے،ورنہ بےپردگی او ر اختلات کےتعلق سےواضح احکامات موجودہیں۔ہماری شادی بیاہ کی تقریبات ہی کودیکھ لیجیے،کیاامیرکیاغریب ،کیاپڑھےلکھےکیاناخواندہ ،سب برابران تقریبات میں تواتنےآپےسےباہرہوجاتےہیں کہ مانواس کےبعدہمیں بیڑیاں پڑنےوالی ہیں، پھربھی ہمارےعلماء،ہماری مذہبی تنظیمیں، اس سےقطعی لاتعلق نہیں ہیں، مختلف طریقوں سےاسکےسدباب کی کوشیش کی جارہی ہیں۔ اس تحریرکامقصدیہ ہےکہ اسطرح کے مسایل میں مبالغہ آمیزی نہ ہو۔ایسانہیں ہےکہ صرف مسلم لڑکیاں ہی ایساکررہی ہیں بلکہ ہندولڑکیوں کےبھی اسلام قبول کرنےکےاورمسلم لڑکوں سےشادیاں کرنےکےواقعات بھی ہورہےہیں اورجب غیرمسلم لڑکیاں مسلم خاندانوں میں آتی ہیں تواس کودل سےقبول کیاجاتاہے ،اسکی عزت کی جاتی ہے۔اسلام نےجوکچھ حقوق ماں،بہن ،بیٹی اوربیوی کےناطےمسلم لڑکی کو دیےہیں، وہ سب حقوق اسلام قبول کرکےگھرمیں آنیوالی اس لڑکی کوملتےہیں ،کوئی تفریق روانہیں رکھی جاتی۔ جب کہ اسطرح کامعاملہ مسلم سےہندومذہب اختیارکرکےہندوخاندان میں داخل ہونےوالی لڑکیوں کانہیں۔ ہندومعاشرہ ایسےلڑکیوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ،بہت ساری مسایل سےایسی لڑکیوں کوگذرناہوتاہے،پھربھی انکےمسایل ختم نہیں ہوتے۔ اسمیں ایک بات اورذہن نشین کرنےکی ضرورت ہےکہ دھرم سنسدوالےاوراور کچھ ہندوتنظیمیں مسلمانوں کےتعلق نا حق تشویش میںمبتلاہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی جانب سےکوئی بھی حرکت انکی دل آزاری کی نہیں کی جاتی ،مسلمان دین وایمان کےساتھ اپنےروزمرہ کےکاموں میں تعلیم ،روزگارکےمسایل میں گم ہیں، پھربھی کس خوف کےتحت یہ تنظیمیں رات دن مسلمانوں کی دل آزاری میں لگی ہوئی ہیں۔ کاٹو،مارو،چھری چاقوتیز کرکےرکھو اسکے،ساتھ مسلمان لڑکیوں کوبہکاپھسلاکر،پھنساکر ان سےشادیاں کرو،اسطرح کی اپیلیں وہ رات دن کرتےرہتےہیں۔ ایسی اپیلوں سےمتاثرہوکرکچھ ہندونوجوان مسلم لڑکیوں کوپھنسانےاورورغلانےمیں لگےہیں، کچھ کامیاب بھی ہوجاتےہیں ۔مسلم لڑکیاں انکےذہن ،دل و دماغ کو سمجھ نہیں پاتیں اوراپنےآپ کوبخوشی جیتےجی مصیبت ، رُسوائی عذابِ جہنم میںجھونک دیتی ہیں۔گذشتہ ہفتہ ایک اردوروزنامہ میں مضمون نظرسےگذرا۔کالم نگارنےعرب ملک دوبئی کاواقعہ بیان کیاکہ ان کوکچھ ایسی مسلم لڑکیوں کےتعلق سےپتہ چلا،جودُبئی کےمختلف بار،ریسٹورانٹ میں کام کرتی تھیں۔ ممبی میں جن کو’ باربالا‘کہاجاتاہے،انہوں نےغیرمسلم لڑکوںسےشادی کی، گھرسےبھاگ کردُبئی آگئی ،یہاں آنےکےکچھ عرصہ بعدان کےغیرمسلم شوہروں نےیاتوانہیں چھوڑدیا یافروخت کردیا۔کالم نگار لکھتےہیں کہ انہوں نےان لڑکیوں سےملنےکی خواہش کی، لیکن لڑکیاں راضی نہیں ہوتی تھیں، کچھ لوگوںکےتوسط سےبہت کوشیش کرنےکےبعدلڑکیوں سےملاقات ہوئی۔ ملاقات میں لڑکیوں کوبتایاگیاکہ آپ سب کواپنےاپنےگھروں کوآپکےاہل خانہ کےپاس پہنچانےکی ہم ذمہ داری لیتےہیں اورگھروالوں کوبھی سمجھایاجائےگا،آپکی زندگی پھرلوٹ آئےگی۔ کچھ لڑکیاں سمجھانےپرراضی ہوگئیں لیکن بیشترلڑکیوں نےانکارکردیاکہ اب گھروالوں کومنہ دکھانےکےقابل نہیں ۔بہرحال یہ ایک سبق ان لڑکیوں کےلیےجودنیاکی چکاچوندسےمرعوب ہوکراپنی دنیاتوبرباد کرہی دیتی ہیں، اپنی آخرت بھی بربادکردیتی ہیں۔ اللہ سےدعا ہےوہ ہماری بچیوں کی حفاظت فرمائے۔آمین
[email protected]