بھارت میں بظاہر عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن جب مرد اور عورت کے درمیان حقوق و اختیارات کی بات آتی ہے تو عام طور پر عورتوں اور لڑکیوں سے ناانصافی ہوتی ہے ،ہمارے معاشرے میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جو عورتوں سے مساوات کو ظاہر کرتی ہو،یہاں خواتین کے ساتھ مختلف طریقوں سے جانبداری برتی جارہی ہے ،جہیز کی لعنت ہو یا وراثت کی تقسیم ،تعلیم کا حق ہو یا بچوں کی پرورش لڑکی کو جان بوجھ کر بوجھ سمجھا جاتا اور نظرانداز کردیا جاتا ہے ،خاص طور پر لڑکیوں کو رحم مادر میں مار ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ مذکورہ آلہ حمل کی خرابیوں یا بیماریوں کو جانچنے کے لئے ایجاد ہوا تھا ،جسے لالچی معا لجین نے لڑکیوں کو رحم ِ مادر میں ختم کرنے کا اوزار بنایا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس ذریعہ سے ہر سال ہندوستان میں پچیس لاکھ مائوں کے رحم میں پلنے والی لڑکیوں کو پیدائش سے قبل تہ تیغ کردیا جاتا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ترقی یافتہ ریاستوں سے لے کرپچھڑے ہوئے صوبوں تک میں یہ کام نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ قانونی حد بندیوں کے باوجود جاری ہے ۔2001کی مردم شماری رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ایک ہزار مردوں کے مقابل عورتوں کی تعداد صرف 933ہے ،اگر عالمی سطح پر ہم جائزہ لیں تو روس میں ایک ہزار مردوں کے مقابل خواتین کی تعداد سب سے زیادہ1140ہے جب کہ امریکہ میں 1029ہے اور جاپان میں 1091عورتیں پائی جاتی ہیں،ان کے علاوہ برازیل ،نائجیریا ،انڈونیشیا میں بھی مردوں کے مقابل عورتوں کی آبادی زیادہ ہے ۔ایک اور جائزہ کے مطابق بنگلہ دیش ،سری لنکا اور نیپال جیسے کم ترقی یافتہ ملکوں میں صورت حال ہندوستان سے بہتر ہے لیکن تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک ہندوستان عورتوں کی آبادی کے تناسب میں کمی کے لحاظ سے دسویں مقام پر ہے۔ہمارے یہاں عورتوں کی آبادی میں مذکورہ کمی اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس سلسلے کے اعدادو شمار کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آبادی میں یہ کمی درجہ بہ درجہ آئی ہے ۔1961کی مردم شماری میں ایک ہزار مردوں کے مقابل عورتوں کی آبادی 976تھی جو 2001کی مردم شماری میں گھٹ کر 927رہ گئی ہے۔
سماجی سطح پر پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کا لڑکیوں کے تئیں رویہ ٹھیک نہیں ہوتا،غریبوں میں بھی لڑکیوں کی پیدائش کے بعد ان سے جو خراب برتائو ہوتا ہے ،اس سے غریب خاندانوں میں لڑکیوں کی اموات کی شرح میںاضافہ اور افزائش کی شرح میں کمی آرہی ہے ۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں شیروں کی آبادی گھٹنے پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ، آوارہ کتوں کو مارنے کے خلاف چیخ و پکار کی جاتی ہے،گائو کشی کے نام پر انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے مگر دوسری طرف اسی ملک میں لڑکیوں کی نسل کُشی کو سماج نے خاموش اجازت دے رکھی ہے۔حالانکہ عورت اور مرد کا یہ جنسی عدم توازن اور اولاد کو اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دینے کا عمل ہرگز اچھی علامت نہیں ۔اگر یہی حال رہا تو آئندہ چند برس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان آبادی کا بڑھتا فرق خطرناک بن جائے گا اور اس وقت سماج میں عورتوں کی کمی سے مجبور ہوکر مردوں کی ایک بڑی تعداد شادی سے محروم ہوجائے گی۔اس لئے حکومت سے ساری توقع قائم کرلینا کہ وہی لڑکیوں کی اس نسل کُشی پر قابو پائے ،زیادہ عملی نہیں ۔اس کے بجائے سماجی ، مذہبی اور اخلاقی سطح پر اس بڑائی کا مقابلہ کرنے کی فکر ہونا چاہئے ۔یہ کام لڑکیوں کی تعلیم اور روز گار کے مواقع بڑھاکر بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ قانون و انتظام کے نفاذ سے بالکل سے بھی زیادہ مشکل کام ہے اور جب تک سماج میں لڑکیوں کی نسل کشی کو ایک لعنت سمجھ کر اس کا مقابلہ نہیں ہوگا ،اس وقت تک یہ بُرائی دور ہونا مشکل ہے۔غالباً 1980کی دہائی میں جب سب سے پہلے یہ راز فاش ہوا تھا کہ ایک خاص جانچ کے ذریعہ رحمِ مادر میں پلنے والی لڑکی کے حمل کو ضائع کیا جارہا ہے تو ممبئی کے بیدار شہریوں خاص طور پر خواتین تنظیموں نے بچے اور بچیوں کو لے کر اس جرم میں ملوث ہسپتال کا گھیرائو کردیا تھا ۔اس احتجاجی ریلی میں لڑکیوں نے جو پوسٹر اور بینر ہاتھ میں اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا کہ ’’ہم بھی جینا چاہتے ہیں‘‘اور ’’لڑکی لڑکے سے کسی طرح کم نہیں ہوتی‘‘چند دن تک چلنے والے اس دھرنے کے بعد مہاراشٹر وہ پہلی ریاست بنی ،جہاں ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کی جنس کو شناخت کرکے ضائع کرنے کے خلاف قانون بنایا گیا ۔اس لئے مناسب ہوگا کہ قانون کے ساتھ عوام میں بیداری لاکر اس لعنت کا مقابلہ کیا جائے اور مذہب کے اعلیٰ اصول جو ایسے کسی فعل کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ہر انسانی جان کی حفاظت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان سے بھی خاطر خواہ مدد لی جائے۔