سرینگر//عدالت عالیہ نے ایک اہم فیصلے میں پریذینٹیشن کانوینٹ راج باغ کے نزدیک زیر تعمیر لچکیلے (SKEWED) پل کا منصوبہ تبدیل کرکے اسے فٹ برج بنانے نیز عبداللہ برج کے ساتھ نیا پل تعمیر کرنے پر روک لگا دی ہے۔گریٹر کشمیر کی رپورٹ کو مفاد عامہ عرضی کے بطور زیر سماعت لاکر عدالت عالیہ کے ڈویڑن بنچ نے سوموار کو کہا کہ شہر سرینگر کی ماحولیات کو تباہ کرنے کی سرکاری کوششوں کو جس طرح اجاگر کیا گیا ہے ،ایسے میں اس لچکیلے پل کوتعمیر کے دوران ہی خطیر رقم صرف کرنے کے بعد فٹ برج میں تبدیل کرنے نیز عبداللہ بر ج کے ساتھ ہی دوسرا پل تعمیر کرنے پر فی الحال حکم امتناع جاری کیا جارہا ہے۔جسٹس علی محمد ماگرے اور جستس ڈی ایس ٹھاکر پر مشتمل ڈویژن بنچ کے سامنے مفاد عامہ عرضی پر سماعت ہوئی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالت عالیہ نے گریٹر کشمیر کی رپورٹ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسے مفاد عامہ عرضی کے تحت زیر سماعت لایا ہے ۔گریٹر کشمیر نے اپنی کئی رپورٹوں میں سیاسی بنیادوں پر کئی مخصوص تاجروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے پریذنٹیشن کانونٹ کے نزدیک 8کروڑ روپے کی خطیر رقم صرف کرنے کے بعد اس کی تعمیر کا منصوبہ تبدیل کرنے نیز عبداللہ برج کے پاس ہی دوسرا پل تعمیر کرنے کی مخالفت کی تھی ۔سماعت کے دوران ڈویژن بنچ نے چیف سیکریٹری ،کمشنر سیکریٹری ،پلاننگ ،پبلک ورکس ،فلڈ کنٹرول اینڈ اری گیشن ،ٹرانسپورٹ ،فلوری کلچر،ڈائریکٹر آرکائیوز،آرکالوجی اینڈ میوزیم ،چیف انجینئر پی ڈبلیو ڈی کشمیر ،ڈپٹی کمشنر سرینگر ،چیف ٹائون پلانر کشمیر اورسینئر سپرانٹنڈنٹ آف پولیس ،ٹریفک سرینگر ،کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے 10روز کے اندر اپنے عذرات پیش کرنے کی ہدایت دی ۔ڈویژن بنچ نے ان افسران سے جواب طلب کرتے ہوئے کہاکہ بیان حلفی پر یہ رپورٹ پیش کریں کہ ان منصوبوں کیلئے ان کا کیا رول ہے اور ابھی تک ان منصوبوں میں انہوں نے کیا رول ادا کیا ہے یا ادا کرنے والے ہیں ۔عدالت عالیہ نے سینئر ایڈوکیٹ آر اے جان سے اس معاملے میں تعاون پیش کرنے کیلئے کہا گیا ۔ریاستی چیف جسٹس کو اس حوالے سے رجسٹرار جنرل کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم عوامی معاملہ ہے جس میں عدالت عالیہ کی مداخلت مطلوب ہے ۔گریٹر کشمیر کی رپوٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ریاستی سرکار خطیر رقم صرف کرنے اور ماحولیات کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد لگ بھگ تیار ایک پل کا تعمیری منصوبے تبدیل کرنے پر بضد ہے ۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایمپوریم گارڈن کے نام سے مشہور ایک تاریخی وثقافتی عمارت اور سائٹ کو تباہ کیا جارہا ہے جبکہ عدالت عالیہ کے سابقہ فیصلے بتاریخ 24اکتوبر 2013کی عمل آوری میں سرکاری عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کیاگیا ہے۔ایڈوکیٹ آفتاب ہلالی و دیگران بنام سرکار و دیگران عنوان سے دائر مفاد عامہ عرضی ان بنیادوں پر زیر سماعت لائی گئی تھی کہ سکیوڈ برج کے نام سے موسوم اس پل کے اثرات کو خاطر میں لائے بغیر ہی زیر تعمیر لایا گیا ہے جس میں عوامی راحت کے بجائے کچھ مخصوص تاجروں اور بااثر لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ اس پل کی تعمیر میں ماسٹر پلان کو بھی ملحوظ نظر نہیں رکھا گیا ہے ۔