اُس دن۔۔۔۔۔اُس دن دفتر سے واپس آکر میں نے کپڑے تبدیل کئے ۔ ہاتھ منہ دھوکر چائے کے انتظار میں اخبار اُٹھاکر اُس کی سرخیاں دیکھنے لگا ۔ تھوڑی ہی دیر میں بیگم صاحبہ چائے کی ٹرے ہاتھوں میں لئے (ہشاش بشاش حسبِ معمول نہیں بلکہ خلافِ توقع )غالبؔ کا مصرعہ گنگناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ع
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
میں اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا ۔کہاں وہ تھکا تھکا کسل مند جسم اور مضمحل بے رونق چہرہ اور کہاں آج کی یہ باغ و بہار والی دلربائی ۔میں نے معنی خیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھا ،اُس نے مسکراتے ہوئے چائے کی پیالی میری طرف بڑھا دی اور لطف کی بات یہ تھی کہ چائے کے ساتھ معمول کے بسکٹ روٹی کے علاوہ پنیر کے پکوڑے بھی تھے ۔بیگم صاحبہ کا موڈ بھی کافی خوشگوار تھا اور مہمان نوازی کے لوازمات بھی پورے کررہی تھی۔اولاًمیں اُس تبدیلی پر حیران رہ گیا مگر فوراً ہی مجھے یاد آیا کہ ایسا یقیناً اُس شیطان کی وجہ سے ہوا ہوگا جس کو اُسی دن صبح کو میں نے گھر سے باہر نکال دیا تھا ۔اس کے علاوہ اور کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ دوسرے روز میں نے گھر میں ایک اور تبدیلی دیکھی ،دفتر سے لوٹنے پر میں دبے پائوں گھر میں داخل ہوا تاکہ جان سکوں کہ بچے اُس موذی کی غیر موجودگی میں کیا کر رہے ہیں ۔وہ اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دئے۔میں چپکے سے جاکر اسلم ؔکے پیچھے کھڑا ہوگیا ۔وہ بچوں کے کسی رسالے یا سکول میگزین کے لئے چٹکلے لکھ رہا تھا اور وہ اپنے کام میں اس قدر مگن و منہمک تھا کہ اُسے میری موجودگی کا علم ہی نہ ہوسکا اورمُنی نے بھی بہت دن بعد کسی کونے کھدرے سے اپنی چہیتی گڑیا نکالی تھی ۔وہ اُس کے ساتھ باتیں بھی کئے جارہی تھی اور اُس کے بال بھی سنوار رہی تھی ۔یہ تبدیلی یقیناًمیرے لئے غیر متوقع تھی ۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا ،اور اُس وقت کو دعائیں دینے لگا جب میں نے اُسے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا تھا ۔خوشی اس بات کی بھی ہورہی تھی کہ میرا فیصلہ کتنا مناسب اور بروقت تھا ۔اخبار کے ساتھ مجھے بیر سا ہوگیا تھا مگر اب صورت حال یہ ہے کہ میں بزنس اور صرافہ بازار سے متعلق خبروں کو چھوڑ کر تقریباً تین چوتھائی اخبار روز پڑھ لیتا ہوں۔اسی دوران پبلک لائبریری ممبر شپ کی بھی میں نے تجدید کروالی اور دو کتابیں صرف ایک ہفتہ میں پڑھ کر اُنہیں واپس بھی کرآیاہوں ،بلکہ اُن کے بدلے دوسری دو کتابیں لایا ہوں ۔میری زندگی معمول کے مطابق اور قرینے سے گذرنے لگی ہے اور میں خوش ہوں کہ میں نے اُس بے مروت کو گھر سے باہر نکال کر بہت ہی مناسب اور منافع بخش کام کیا ہے ۔
کچھ دن ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میرے دفتر کے لوگ میری جانب معنی خیز نظروں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔پہلے تو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا مگر آخر کار پوچھے بنا نہ رہ سکا ۔میرا ایک ساتھی بڑی بے تکلفی کے ساتھ بولا ’’بات دراصل یہ ہے جناب کہ سابقہ چند ایام سے ہم دیکھ رہے کہ آپ کے کپڑے نہ صرف صاف ستھرے بلکہ استری شدہ بھی ہوتے ہیں ،بال سنورے ہوتے ہیں اور شیو بھی لگتا ہے روز ہوجاتی ہے ۔آپ کے جوتے چمک رہے ہوتے ہیں،ظاہر ہے کہ ان پر پالش بھی ہوتی ہوگی۔ہم حیران ہیں کہ آپ کی وہ پہلی خزاں آلودہ سی ۂیت اور موجودہ ماشا ء اللہ باغ و بہار سی صورت ؟ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے ۔‘‘ جواباً میں نے جب اُنہیں اصل وجہ بتائی اور اُس خبیث کو گھر سے نکال باہر کرنے کی بات بتائی تو انہوں نے نہ صرف میری تعریف کی بلکہ بے انتہا مسرت کے اظہار کے ساتھ مجھے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہنے کا بھی مشورہ دیا ۔چند روز ہوئے میرے ایک دیرینہ دوست چودھری صاحب گھر پر تشریف لائے ،مگر اب کی بار میرے بچوں کو جھوٹ نہیں بولنا پڑا کہ میں گھر میں نہیں ہوں بلکہ میرے کہے بغیر ہی وہ اُنہیں احترام کے ساتھ بیٹھک میں لے آئے اور جب تک میں شامل ِگفتگو نہ ہوجائوں ،اُن کے آگے ڈرائی فروٹ کی ٹرے اور ایک دو میگزین رکھ دیئے۔یقین مانئے جس دن تک وہ نگوڑا گھر میں تھا ، ایسا ہونا تو درکنار چودھری صاحب کو ہماری بیٹھک کی چوکھٹ دیکھنے کا اتفاق بہت دنوں سے نہیں ہوا تھا اور مجھے بھی سچ بول کر اور بچوں سے سچ سن کر واقعی ایک دلی مسرت کا احساس ہورہا تھا ۔اسی طرح ایک دن جب میں دفتر سے گھر لوٹا تو بیگم صاحبہ کو غیر حاضر پایا ۔بچوں نے بتایا کہ امی، آپا کے ہاں چلی گئی ہیں۔بات دراصل یہ تھی کہ میری چھوٹی سالی نے اپنی بڑی بہن سے بہ اصرار کئی بار کہا تھا کہ اُس نے کچھ گھریلوسامان بازار سے منگوانا ہے ،وہ اُسے آکر دیکھ لیں ۔اس وجہ بیگم بہت دنوں کے بعد اپنی چھوٹی بہن سے ملنے اور نیا خریدا ہوا سامان دیکھنے گئی تھیں ۔اچھا ہی ہوا میری چھوٹی سالی جس کو ہم نے بچوں کی طرح ہی پالا پوسا تھا، خوش ہوئی ہوگی اور بیگم کا وعدہ ایفا ء کرنے میں مجھے بھی ایک انجانی سی مسرت ہورہی تھی ۔اس طرح رشتے میں بھی دراڈ پرنے سے نجات مل گئی ۔آگے وقت ہی کہاں تھا ،فرصت ہی کہاں تھی ۔وہ داروغہ جو گھر میں بیٹھا تھا ،گھر سے باہر نکلنے کی بات تو دور رہی وہ تھوڑی اِدھر اُدھر سہنے دیتا تھا ۔جان عذاب میں آن پڑی تھی۔جس گھر میں آئے دن اسی طرح کی کوئی نہ کوئی تعمیری تبدیلی ہوتے دیکھتا رہا،کبھی گھر آئینے کی طرح چمکتا اور صاف ستھرا نظر آتا ۔ہر طرف جھاڑ پونچھ ہوئی لگتی تھی ۔آگے یہ حال تھا ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
کسی دن بستر کی چادریں دُھلی ہوتیں ۔کبھی برتنوں میں خوب مانجنے کی چمک آشکار ا ہوجاتی ۔کبھی کتابوں کے شیلف جاڑھ پونچھ کئے ملتے ۔ کبھی پردوں کے اُدھڑے بخیئے سلے سلائے ملتے ۔کبھی اپنے گھر کے صحن کو دیکھ کر میں نشاط باغ بھول جاتا ۔کیا ریاں سلیقے سے سنوری ہوتیں اور پھولوں کے گملے قرینے سے رکھے ملتے ،غرض یہ کہ ہر ایک شیٔ سے خوبصورتی اور نفاست جھلکتی تھی ۔بہر حال میں بہت خوش ہوں اتنا کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔مجھے واقعی اپنا گھر اب اپنا لگنے لگا ہے اور تمام کھوئی ہوئی خوشیاں ،گھریلو رکھ رکھائو اور ڈسپلن ، فیملی کا اپنا پن اور پیار دوبارہ واپس پانے کے لئے میرا وہ قدم کتنا نپا تُلا ،بر وقت او ر صحیح تھا جب میں نے اُس لٹیرے کو گھر سے باہر کردیا تھا ۔پہلے تو کسی کو بات کرنے اور دو بول شئیر کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی مگر ۔۔۔۔۔مگر میں نے آپ کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ میں نے کسی کو گھر سے باہر نکالا ،کس کو گھر سے بے گھر کردیا ۔اپنا گھر واپس پانے کے لئے کس کا گھر اُجاڑدیا ۔جی ہاں! اُسی ۔۔۔۔۔۔۔یعنی ٹیلی ویژن کا ۔
…………………………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995