جموں//نیشنل کانفرنس صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ہندپاک مذاکرات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے موجودہ کشیدگی کم کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ شیر کشمیر بھون میں پارٹی کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرحدوں پر تنائو کا خمیازہ مقامی آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی بی جے پی کے ایجنڈ ا آف الائنس پر عملدرآمد کرتے ہوئے نئی دہلی کو تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہئے ۔فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’وادی کے حالات بگڑنے کی اہم وجہ پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنا ہے ،لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا کیوں کہ پی ڈی پی نے اسمبلی چنائو ہی بی جے پی کے وادی میں داخلہ کو روکنے کے نام پر لڑا تھا۔جنوبی کشمیر کے لوگوں میں سب سے زیادہ غصہ ہے، پی ڈی پی نے پورے کشمیر میں بی جے پی مخالف مہم چلائی اور بعد میں اقتدار کے لئے سنگھ پریوارکے ساتھ اتحاد کر لیا جو لوگوں کو ہضم نہیں ہو‘ا۔ کسی کا نام لئے بغیر این سی صدر نے کہا کہ ’مہلوک جنگجوئوں کے گھروں میں جاکر وہ مگر مچھ کے آنسو بہانا اور سبز جامے زیب تن کر کے دکھانا کہاںچلا گیا‘۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے موجودہ حالات کے لئے حکمران جماعت کا دوغلا پن ذمہ دار ہے ، لوگ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں ، حالات جو رفتہ رفتہ معمول پر آ رہے تھے ایک بار پھر انتہائی پیچیدہ بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ نے یاد دلایا کہ ریاست کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی تسلیم کیا تھا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے‘ اور کہا کہ اس مسئلہ کے سیاسی پہلوئوں کو حل کیا جانا انتہائی ضروری ہے ۔انہوں نے نئی دہلی کی طرف سے وقتاً فوقتاً کئے گئے وعدوں کی یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ اگر ان پر پیش رفت ہوئی ہوتی تو آج صورتحال یکسر الگ ہوتی۔ سابق وزیر اعظم نرسمہا رائو کا’آسمان حد ہے‘ کے وعدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا یہ ایک بھدا مذاق ثابت ہوا کیوںکہ مرکزی حکومت نے اٹانومی کے حوالہ سے کچھ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے وارننگ دی کہ بھارت کے مسلمان مسلم پرنسل قانون میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مذہبی پینل کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ شرعیت کے قوانین کو دیکھ لیں۔انکا کہنا تھا کہ ہر مذہب کے اپنے قواعد ہیں،اگر ہندووں پر کوئی مذہب ٹھونسا جائے گا کیا وہ تسلیم کریں گے۔اسلام میں ایک کمیٹی شرعیت کے قوانین کو دیکھتی ہے، اگر کوئی زبردستی کچھ اس میں تبدیلی کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔