اگر کوئی تجھ سے طلب کرے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگادیا کرو
مودی سرکار 2014میں برسر اقتدار آئی تھی۔ اُس کی معیاد اقتدار کے چار سال بیت چکے ہیں۔صرف ایک سال باقی ہے۔ نئے انتخاب 2019میںمنعقد ہونے ہیںلیکن آثار و قرائین سے ظاہر ہوتاہے کہ مودی سرکار کا قبل اَز وقت 2018کے اواخر میں ہی انتخابات منعقد کرنے کامنصوبہ بنارہی ہے۔ اس لئے اُس کی معیاد قریب الاختتام ہے مگر یہ کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ رشوت اوربھرشٹاچار کے خاتمہ کے جس مدعا پر وہ برسر اقتدار آئی تھی اور لوک پال قانون ( جو کانگریس کی منموہن سنگھ وزارت کے عہد میں زبردست آندولن کے باعث منظور ہوا تھا) کو نافذالعمل کرانے میں ناکام رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک مودی سرکار میں کوئی لوک پال تعینات نہ ہوسکا۔ حدیہ کہ اس سرکار کی حالت قابل رحم ہے کہ بار ہا سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود بھی سرکار نے اس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا ۔ ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی عملی کاروائی ممکن نہیںہے کیونکہ معاملہ’ نہ نومن تیل ہوگا اور نہ ہی رادھا ناچے گی‘ والا ہے۔ اس سب سے اہم مسئلہ پر بھاجپا سرکار کی ناکامی اُس کی دیگرناکامیوں کی طرح ایک منہ بولتی حقیقت ہے، گرچہ یہ لاف زنیاں کرکے اپنی خیالی کامیابیوں کے لمبے چوڑے دعوے بھی کرتی پھرے۔
رشوت اور بھرشٹاچار ایسا اہم ناسورزدہ مسئلہ ہے جس پر سارا ملک اور ملک کا ہر حصہ زبردست پریشانی سے دوچار ہے۔ اس ملک میں جتنی بھی شخصیتیں اور پارلیمانی پارٹیاں برسر اقتدار آئیں، انہوں نے اس زحمت سے نجات دلانے اور اس بدعت کے خاتمہ کے لئے بلند بانگ دعوے کئے،جسم و جان کی بازی لگانے کے اعلانات کئے لیکن یہ بدعت اور زحمت بدستور موجود ہے اوراس نے عوام کا ناک میںدم کر رکھاہے بلکہ جینامحال بنارکھاہے۔ عوام دل کی گہرائیوں سے اولین فرصت میںاس بری لعنت سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن یہ لعنت ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح سرکاری کی علمیت کے باوجود بڑھتی ہی جارہی ہے۔ عوام نے اس شیطنیت کو ختم کرنے کے لئے متواتر واویلا کیا، شور وغوغا کیا، احتجاج کیا، احتجاجی تحریکات چلائیں لیکن کوئی بھی پر دھان سیوک یاخادم اعلیٰ اس جان لیو اروگ کاعلاج نہیںکرسکا۔ موجودہ دورمیں بھی رشوت ، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کے خلاف زبردست تقریر بازیاںاور بیان بازیاں کرنے والے رشوت ، بھرشٹاچار اور بدعنوانیاں جوں کی توں پنپ رہی ہیں۔ حالانکہ نریندرمودی خود رشوت ، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کی تحریکات کی لہر پر سوار ہوکر برسر اقتدار آئے تھے لیکن ان کی سرکار کی ناک کے نیچے اس بدعت میںاضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ا س میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔ 2012 اور 2013کی رشوت اور بھرشٹاچار مخالف زبردست ملک گیر اور ہمہ گیر احتجاجی تحریک جس میں اناہزارے وغیرہ غیر ہ سیاسی شخصیتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، اس کے دباؤمیں آکر بامر مجبوری کانگریسی حکمرانوں کو لوک پال قانون کو منظور کرنا پڑاتھا۔ توقع یہ کی جاتی تھی کہ اس احتجاجی تحریک کے بل بوتے اور لہر سوار ہو کر برسراقتدار آنے کے بعد مودی جی لوک پال قانون کو من وعن نافذ العمل کرنے کو اولیت دیںگے لیکن بھاجپا اپنی پانچ سالہ اقتدار کی مدت میں سے زاید از چارسال عرصہ پورا کرنے کے بعد بھی اس قانون کو نافذ العمل کرانے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس اہم ایشوکو بستۂ خاموشی میں بند کردیاہے۔
یہ حقیقت سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ وزیراعظم کس طرح بآواز بلند اور چھاتی تان کر اس لعنت کو ختم کرنے کے عہد و پیمان کیا کرتے تھے اوراس لعنت سے پیدا شدہ سیاہ دولت کو نکال باہر کرنے اور بیرونی ممالک کے بنکوں سے کالا دھن واپس وطن لاکر ہر شخص کے بنک کھاتہ میں فی کس پندرہ لاکھ روپیہ جمع کرنے کے اعلانات کیا کرتے تھے لیکن اس ضمن میں کچھ اور کرنا تودرکنار رہا۔،بیرونی ممالک سے دولت لانا تو دور کی کوڑی رہا، نیرو مودی ،للت مودی، وجے مالیہ وغیرہ کانڈ منظر عام پر آتے رہے ۔ مودی جی اس مایوس کن سلسلہ پر روک لگانے کے حوالے ازروئے قانون و آئین لوک پال قانون جوکہ کانگرس عہد میں منظورہواتھا، تک کوبھی نافذ اُلعمل کروانے میںناکام رہے ۔ اس سے بڑھ کو کسی حکمران کی بھرشٹاچار سے فیصلہ کن جنگ نہ چھیڑنے کے عزم و ارادے کا اور کیا ثبوت ہوسکتاہے؟
کس قدر مضحکہ خیزی کی بات ہے کہ لوک پال قانون کے نفاذ میں طوالت اور التواء کے لئے یہ عذر لنگ پیش کیا جاناہے کہ اس قانون کے تحت لوک پال کمیشن بنانے کے لئے جس اتھارٹی کی ضرورت ہے، اس میں لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ چونکہ اس وقت لوک سبھامیں قواعد کے تحت کوئی اپوزیشن موجود نہیںہے، اس لئے اس قانون کو نافذ پذیر ہونے میں ایک اڑچن اوردقت آڑے آرہی ہے۔ یہ معاملہ ایک بار سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی زیر سماعت آیاتھا، جس پر سپریم کورٹ نے وضاحتاً کہاتھا کہ اگر قواعد کے تحت کوئی باقاعدہ اپوزیشن لیڈر موجود نہیں ہے تو اس کی بجائے سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کو اس اتھارٹی میں نامزد کیا جاسکتاہے لیکن اس عدالتی ہدایت پر عمل نہ کرکے لوک پال قانون نافذ نہ کیاگیاہے اور نہ ہی لوک پال کمیشن قائم کیاگیا۔ اندازہ لگائیے کہ اس مسئلہ میں حکومتی سطح پر کس قدر بے حسی اوع عدم فعالیت پائی جاتی ہے اور اس معاملہ کی اہمیت سے کس بے تکلفی سے روگردانی کی جارہی ہے۔ دنیا میں وہ کون سا مسٔلہ ہے جس کا حل موجود ہے، اگر حکومت ہند کے کرتا دھرتاؤں میں بھرشٹاچار کو جر سے اکھاڑنے کی نیت ہوتی تو کوئی نہ کوئی راستہ نکالا گیا ہوتا ،ایک ارستہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مخصوص صورت حال کے پیش نظر پارلیمنٹ میں لوک پال قانون میں ضروری ترمیم کرکے بھی متعلقہ قواعد وضوابط میں ا س حدتک نرمی لائی جاتی کہ اصل قانون کا مقصد فوت نہ ہو تا بلکہ اسے ہر حال میں پورا کیا جاتا لیکن اس طرف کوئی توجہ نہ دینا ہی اس بات کو اظہر من الشمس کر تاہے کہ حکومت کو بدعنوانیوں کو نیست ونابود کر نے میں کوئی رتی بھر دلچسپی نہیں ۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ اس حوالے سے میں کوتاہ عملی یا غیر سنجیدگی کوئی غیرشعوری یا اتفاقیہ بات نہیںبلکہ شعوری اور دانستہ ہے۔ اس سلسلہ میں این ڈی اے کو ہرگز معاف نہیںکیا جاسکتا اور رشوت اور بھرشٹاچار کے خاتمہ کے سلسلہ میں این ڈی اے لیڈروں کی لفاظی، زبانی جمع خرچ اور بلند بانگ دعوئوں کو قابل پذیرائی نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہکانگریس کے دورِ اقتدارمیں جس طرح رشوت، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کا دور دورہ تھا ،بھاجپا اقتدار کے دوران بھی اس میں ہرگز کوئی کمی نہیں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی سیاسی ہستیوں کے بارے میں رشوت اور بھرشٹاچار کی افسوس ناک خبریں اخبارات میںشہ سرخیاں بنتی ہیں۔ حتیٰ کہ حال ہی میں راہول گاندھی نے بعض کارپوریٹ سرمایہ داروں سے نریندرمودی کے کھاتہ میں جمع رقومات کا تحقیق طلب الزام تک لگایا ہے لیکن ان تمام معاملات کونظرانداز کردیاجارہاہے بلکہ بھاجپا ہائی کمانڈ کی طرف سے بعضوں کے حق میں کلین چٹ پر معاملات کو رفع دفع کردیا جاتا رہاہے۔ ایسا طر ز عمل اختیار کرنا رشوت ستانی اور بھرشٹاچارکے خلاف انسدادی کاروائی ہر گز قرارنہیں دی جاسکتی بلکہ اسے مہذب زبان میں ’’اعانت مجرمانہ ‘‘ ہی کہا جاسکتاہے۔ ان حقائق کی روشنی میں واضح ہوتاہے کہ لوک پال قانون کا نفاذ اور لوک پال کمیشن کا قیام ملک وقوم کی کتنی بڑی قدر ضرورت ہے اور اس قانون اورکمیشن کو بستہء خاموشی میں بند کرنا کتنا بڑا مجرمانہ فعل ہے۔ اسے اعانتِ مجرمانہ ہی کہا جاسکتاہے۔
حال ہی میں پاناما لیکس کے انکشافات کے تحت کئی ممالک کے سیاسی لیڈروں اور دوسرے افراد کے خلاف الزامات اور جرائم منظرعام پر آئے ہیں اور ان اشخاص اور افراد کو سزایاب بھی کیاگیاہے۔ اس سلسلہ میں ہمسایہ ملک پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں ان انکشافات کی وجہ سے عدالت نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو نہ صرف وزارت اعظمیٰ سے الگ کردیا بلکہ انہیںعمر بھر کے لئے کسی بھی عہدہ پر تعیناتی سے محروم کردیا۔ اِس کے برعکس پانامالیکس کی مندرجہ بالا صدر رپورٹ میں 224ہندوستانیوں کے نام درج ہیں جن میں امیتابھ بچن اور ان کی بہو ایشوریہ رائے بچن سمیت کئی بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے ناموں کااندراج ہے لیکن ابھی تک بھاجپا کی سرکردگی میں مرکزی سرکار نے اس سلسلہ میں کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی۔ کیا اسی طرح کی بے عملی کو تسلسل بخشنے کے سلسلہ میں لوک پال قانون کے نفاذ اور لوک پال کمیشن کے قیام کو بھی بستہء خاموشی میں بند کردیا گیاہے؟ مودی سرکار بلا شبہ اس سلسلہ میں جوابدہ ہے اور اس سوال کا مدلل و مفصل جواب دینے کی مکلف ہے۔
بھاجپا سرکار کے زیرسایہ صرف لوک پال قانون کے نفاذ کو ہی بستۂ خاموشی میںبند کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا ہے بلکہ دیگر معاملات جن میں مہنگائی پر روک اور انسداد بے روزگاری اور بے کار ی کے خاتمے جیسے دوسرے اہم معاملات بھی شامل ہیں، مودی سرکار آج تک انہیں بھی حل کرنے میںناکام رہی ہے۔ اس نے اصل بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کبھی نوٹ بندی، کبھی جی ایس ٹی ، کبھی گئو رکشا ، کبھی دھر م پریورتن، کبھی فرقہ وارانہ فسادات،
کبھی ذات برادری کے جھگڑے، کبھی ہمسایہ ممالک سے خونی تنازعات، کبھی علاقائی مسائل ، کبھی دریائوں کے پانی کی تقسیم ،کبھی ملکی مسائل چھوڑ کر غیر ملکی ودرے اور کبھی انتخابی اشتعال جیسے کام کئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بھاجپا کی مانند دیگر لٹیرے حکمران طبقوں کی پارلیمانی پارٹیاں بھی اس چکر ویومیں پھنسی ہوئی ہیں اور عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل جن میں رشوت اور بھرشٹاچار کا مسئلہ بھی سر فہرست شامل ہے، قطعاً پس پُشت ڈال دئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی پارلیمانی پارٹی اس چکر ویو سے باہر نکل کر حقیقی اوربنیادی مسائل پر زبان تک نہیںکھولتی۔ اس چالبازانہ چکرویو کی وجہ سے مودی سرکار لوک پال قانون اور لوک پال کمیشن کے قیام کو بستہء خاموشی میںبند کرنے میںکامیاب رہی ہے۔ رشوت اوربھرشٹاچار کے انسداد کے سلسلہ میںصرف مرکزی سرکار کا عمل ہی ناکارہ اور ناکام ثابت نہیںہوا ہے بلکہ ہماری ریاستی سرکاروں کی حالت اس معاملہ کچھ زیادہ ہی بدتر ہے۔ مثلاً ہماری ریاست جموں وکشمیر میں قائم احتساب کمیشن کو بھی سرکار نے عملاً ناکارہ بناکر رکھ دیاہے اور یہ اہم ادارہ صرف د کھاوے کا نمائشی ادارہ بانیا جا چکا ہے۔ اگرچہ جموںوکشمیر احتساب ایکٹ ابتداء میں کئی قانونی خامیوں سے پرتھا لیکن سرکاری مداخلت نے اس کے پہلے چیرمین کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا اور بعدازاں اس ایکٹ میںایسی غرض مندانہ ترامیم کردیںجن کے باعث یہ ایکٹ اور احتساب کمیشن محض عضوئے معطل بن کر رہ گیاہے۔ آج کئی برسوں سے قائم اس کمیشن نے ایک فیصلہ تک بھی صادر نہیںکیاہے۔ احتساب کمیشن کے چیرمین جسٹس آر پی سیٹھی نے اِسے ناکارہ قراردیا اور دیگرممبران نے بھی اعتراف کیا کہ احتساب قانون بغیر دانتوں کے شیر کے موافق ہے۔ معلوم نہیں اس احتساب قانون کے اختیار ات کی یہ بدصورتی ہوتے ہوئے بھی اس کے ممبران نے اس کی رُکنیت کیوں قبول کی ہے؟ اس سوال کا جواب تو وہی بتاسکتے ہیں جوکہ انہیںبتانا بھی چاہئے لیکن ظاہر ہے کہ جموں وکشمیر میں قائم کئے گئے دیگر کمیشنوں کی طرح اس کمیشن کی حیثیت بھی محض نمائشی ہے اور عملاً یہ ناکارہ اور ناکام ادارہ ثابت ہواہے۔اندریں حالات لازمی ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے رشوت اوربھرشٹاچار کو کم از کم جزوی طورپر روکنے کے لئے لوک پال قانون کو بستۂ خاموشی سے نکال کر نافذ العمل کیا جائے اور اس کے تحت لوک پال کمیشن قائم کیا جائے اور جموںوکشمیر میںموثر احتساب قانون بنایا جائے یا اس نمائشی کمیشن کو سرے سے ہی ختم کیا جائے۔ البتہ عوام سے ہماری اپیل ہے کہ وہ رشوت اور بھرشٹاچار کے خلاف موثر آواز بلند کرتے ہوئے انسداد کے لئے آواز بلند کرتے رہیں، وگرنہ رشوت اور بھرشٹاچار کی لعنت اس ملک کا بیڑہ غرق کردے گی۔