سحر طلب کرے اگرتجھ سے علاج تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگادیا کرو
رشوت اور بھرشٹاچار ایسا سلگتا مسئلہ ہے جس پر سارا ملک اور ملک کا ہر حصہ زبردست پریشانی کا شکار ہے۔ اس ملک میں جتنی بھی شخصیتیں اور پارلیمانی پارٹیاں برسر اقتدار آئیں،انہوں نے اس زحمت سے نجات دلانے اور اس بدعت کے خاتمہ کے لئے بلند بانگ دعوے کئے، جسم و جان کی بازی لگانے کے اعلانات کئے لیکن یہ بدعت اور زحمت ہمالیائی قد کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ اس امر واقع نے عوام کی ناک میںدم کر رکھاہے، غریبوں کا جینامحال بنارکھاہے، ناداروں کو بے حال بنا رکھاہے اور عام آدمی اس لعنت سے نجات حاصل کرنے کے دل کی گہرائیوںسے خواہاں ہے لیکن حکومتوں کی اپنی کمزوریوں کے سبب یہ لعنت شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جاتی ہے۔ عوام الناس نے اس شیطنیت کو ختم کرنے کے لئے متواتر واویلا کیاہے، شور وغوغا بلند کیاہے، احتجاج کیاہے،اصلاحی تحریکات چلائی ہیں لیکن کوئی بھی حاکم اس کا انسداد نہیںکرسکا۔ موجودہ دورمیں بھی رشوت ، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کے خلاف زبردست تقریر بازی، بیان بازی کرنے والے وزیراعظم نریندرمودی کے عہد میں بھی رشوت ، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کا ہی دور دورہ جاری ہے۔ حالانکہ نریندرمودی خود رشوت ، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کی تحریکات کی لہر پر سوار ہوکر بڑے بڑے سبز باغ دکھاتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے لیکن اس لعنت وبدعت میںاضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس کی شدت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے نہ حدت میں۔ حتیٰ کہ 2012ء اور 2013ء کی رشوت اور بھرشٹاچار کی زبردست ملک گیر اور ہمہ گیر احتجاجی تحریک جس میں اناہزارے وغیرہ غیر سیاسی شخصیتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، کے نتیجہ کے طورپر باامر مجبوری کانگریسی حکمرانوں کو لوک پال قانون کو منظور کرنا پڑاتھا۔ توقع کی جاتی تھی احتجاج کی اس تحریک کے بل بوتے اور لہر پر سوار ہو کر برسراقتدار آنے کے بعد لوک پال قانون کو نافذ العمل کرانے میں نریندرمودی ہراول دستے کادرجہ حاصل کریںگے لیکن نریندرمودی اور بھاجپا اپنی پانچ سالہ اقتدار کی مدت میں تین سال سے زائد عرصہ یعنی نصف سے زیادہ مدتِ کار پورا کرنے کے بعد بھی اس قانون کو نافذ اُلعمل کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں اور اس قانون کو بستہ ٔخاموشی میں فراموش کردیاگیاہے۔
یہ تلخ حقیقت دن کے اُجالے کی مانندساری جنتا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ وزیراعظم کس طرح بآواز بلند اور چھاتی تان کر اس لعنت کو ختم کرنے کے ضمن میں اپنی لچھے دار تقاریر عہد و پیمان کرتے رہتے تھے اوراس لعنت سے پیدا شدہ کالے دھن دولت کو سامنے لانے اور بیرونی ممالک کے بنک کھاتوں سے ا سے نکال کر ہر شخص کے بنک کھاتے میںلاکھوں روپیہ فی کس جمع کرنے کے اعلانات کرتے جاتے رہے تھے لیکن کچھ اور کرنا تو درکنار رہا، بیرونی ممالک سے لوٹی گئی قومی دولت لانا تو دور کی کوڑی رہا، وہ اس سلسلہ میں لوک پال قانون جوکہ کانگرس عہد میں منظورہواتھا، کوبھی تادم تحریرنافذ العمل کرانے میںناکام رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کراس سلسلہ میں کسی حکومت کی نااہلیت، نکمے پن اور ناکامی کا اور کیا ثبوت ہوسکتاہے؟
یہ کس قدر مضحکہ خیزبات ہے کہ لوک پال قانون نافذ نہ کرنے کے لئے طوالت اور التواء کے لئے یہ عذر لنگ پیش کیا جاناہے کہ اس قانون کے تحت لوک پال کمیشن بنانے کے لئے جس اتھارٹی کی ضرورت ہے، اس میں لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ چونکہ اس وقت لوک سبھامیں قواعد کے تحت کوئی اپوزیشن موجود نہیںہے،اس لئے اس قانون کو نافذ پذیر ہونے میںوقت درکار ہے۔ یہ معاملہ ایک بار سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی زیر سماعت آیاتھا، جس میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ اگر قواعد کے تحت کوئی باقاعدہ اپوزیشن لیڈر موجود نہیں ہے تو اس کی بجائے سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کو اس اتھارٹی میں نامزد کیا جاسکتاہے لیکن اس عدالتی ہدایت پر عمل درآمدکرکے لوک پال قانون نافذ نہیںکیاگیاہے اور نہ ہی لوک پال کمیشن قائم کیاگیاہے۔ اندازہ لگائیے کہ یہ طرزعمل کس قدر بے حسی اور معاملہ کی نوعیت کی اہمیت سے روگردانی ہے۔حالا نکہ بصورت دیگر پارلیمنٹ میں لوک پال قانون میں زمینی حالات کے مطابق مطلوبہ ترمیم کرکے بھی قواعدوضوابط کو پورا کیا جاسکتاتھا لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، نہ فی الحال اس کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں۔اس وجہ سے واضح ہوتاہے کہ حکومتی سطح پر کوتاہی اور شان ِ بے نیازی کوئی غیر شعوری یا اتفاقیہ امر نہیں بلکہ شعوری اور دانستہ حرکت ہے۔ بہرصورت اس سلسلہ میں کنی کترانے کی اداؤں پر این ڈی اے کو ہرگز معاف نہیںکیا جاسکتا اور رشوت اور بھرشٹاچار کے خاتمہ کے سلسلہ میں این ڈی اے لیڈروں کی لفاظی، زبانی جمع خرچ اور بلند بانگ دعوئوں کو ہر گز قابل پذیرائی نہیں سمجھا جاسکتا۔
کانگریس کے دورِ اقتدارمیں رشوت، بھرشٹاچار اور بدعنوانیوں کی جو گہری دھند ملک و قوم کے طالع پر چھائی ہوئی تھی، بھاجپا کے سہ سالہ اقتدار کے دوران بھی اس میں ہرگز کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی بڑی حکومتی اور سیاسی ہستی کے خلاف رشوت اور بھرشٹاچار کی خبریں اخبارات میں شائع ہوکر سنسنی پھیلاتی ہیں۔ حتیٰ کہ راہول گاندھی نے بعض کارپوریٹ سرمایہ داروں سے نریندرمودی کے کھاتہ میں جمع رقومات کا الزام تک بھی لگایا لیکن نقار خانے میں طوطی کے مصداق ان تمام انکشافات کونظرانداز کردیاگیااور بعض معاملات میں فقط بھاجپا ہائی کمانڈ کی طرف سے کلین چٹ پر بات کو رفع دفع کردیا گیا۔ ایسا کرنا رشوت ستانی اور بھرشٹاچارکے خلاف انسدادی کاروائی ہر گز قرارنہیں دی جاسکتی بلکہ اس کے لئے مناسب لفظ ’’اعانت ِمجرمانہ ‘‘ ہی ہوسکتاہے۔ ان حالات سے واضح ہوتا ہے کہ لوک پال قانون کے نفاذ اور لوک پال کمیشن کی کس قدر ضرورت ہے اور اس قانون اورکمیشن کو بستۂ فراموشی میں بند کرنا مجرمانہ فعل ہے بلکہ اس دید ودانستہ عمل کو اعانت ِمجرمانہ ہی کہا جاسکتاہے۔
حال ہی میں پاناما لیکس کے انکشافات کے تحت کئی ممالک کے سیاسی لیڈروں اور دوسرے افراد کے خلاف الزامات اور جرائم منظرعام پر آئے ہیں اور ان اہم شخصیات اور سرکردہ افراد کو سزایاب بھی کیاگیاہے۔ اس سلسلہ میں ہمسایہ ملک پاکستان کی مثال سامنے ہے جہاں بدعنوانی کے انکشافات کی وجہ سے پاکستانی عدالت عظمیٰ نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ اعظمیٰ سے الگ کردیاہے بلکہ کسی بھی قومی عہدہ پر تعیناتی کے لئے فی الحال نااہل قرار دے کر انہیں سیاسی مناصب سے محروم کردیاہے۔ اس کے برعکس پانامالیکس کی مندرجہ صدر رپورٹ میں 224؍ہندوستانیوں کے نام بھی نامیاں طوردرج ہیں جن میں امیتابھ بچن اور ان کی بہو ایشوریہ رائے بچن سمیت کئی بڑے صنعت کار اور سرمایہ داروں شامل ہیں لیکن ابھی تک بھاجپا کی سرکردگی میں مرکزی سرکار نے اس سلسلہ میں کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی کیونکہ یہ سب ملوثین مبینہ طور اس کے سگے سمبندھی بتائے جاتے ہیں۔ کیا اسی طرح کی بے عملی یا صحیح ترالفاظ میں چشم پوشی برتنے کے تسلسل کے سلسلہ میں ہی لوک پال قانون کے نفاذ اور لوک پال کمیشن کے قیام کو بھی بستہ ٔ فراموشی میں پھینک دیا گیاہے؟ مودی سرکار بلاشبہ عوام الناس کے اس سوال کا جواب دینے میں اخلاقاً پابند ہے۔
صرف لوک پال قانون کے نفاذ کو بستۂ خاموشی بند کرنے کی بات نہیں بلکہ اور بھی دیگر معاملات ہیں جو مودی سرکار کو سابقہ سرکاروں کی عوام دشمنی کے ہم پلہ دکھاتے ہیں۔ ان میں مثلاً مہنگائی پر روک لگانا اور انسدادِ بے روزگاری ، سماجی مساوات میں عدم توازن اور دوسرے ایسے اہم معاملات بھی شامل ہیں۔ اپنے وعدے وعید کے باوجود بھی مودی سرکار ان عوامی مسائل کو حل کرنے میںناکام رہی ہے۔ اس نے اصل بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کبھی نوٹ بندی، کبھی جی ایس ٹی ، کبھی گئو رکشا ، کبھی دھر م پریورتن، کبھی فرقہ وارانہ فسادات، کبھی مناقشات ، کبھی ذات برادری کے جھگڑے، کبھی ہمسایہ ممالک سے تنازعات، کبھی علاقائی مسائل ، کبھی دریائوں کے پانی کی تقسیم، کبھی انتخابی مہموں ، کبھی پے در پے غیر ملکی دوروں جیسے گورکھ دھندوں میں اپنا وقت اورقوت ضائع کر دیا اور لوگوں کو اپنے ’’من کی بات ‘‘ جیسی چیزوں میں الجھاکر تین سال کا طویل دورانیہ کاٹ دیا۔ دیگر لٹیرے حکمران طبقوں کی پارلیمانی پارٹیاں بھی اس چکر ویومیں پھنسی ہوئی ہیں اور عوام کے حقیقی اور بنیادی مساء کے حل، جن میں رشوت اور بھرشٹاچار کا مسئلہ بھی سر فہر ست شامل ہے، قطعاً پس پشت ڈال دئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی پارلیمانی پارٹی اس چکر ویو سے باہر نکل کر حقیقی اوربنیادی عوامی مسائل پر زبان تک نہیںکھولتی۔ اس چال بازانہ چکرویو کی وجہ سے مودی سرکار لوک پال قانون اور لوک پال کمیشن کے قیام کو ٹرخانے میںہی عافیت سمجھتی ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ رشوت اوربھرشٹاچار کے انسداد کے سلسلہ میںصرف مرکزی سرکار ہی ناکارہ عمل اور ناکام ثابت نہیںہوئی ہے بلکہ دیکھا دیکھی میں ریاستی سرکاروں کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ مثلاً ہماری ریاست جموں وکشمیر میں قائم احتساب کمیشن کو بھی سرکار نے عملاً ناکارہ بناکر رکھ دیاہے اور وہ صرف د کھاوے کا نمائشی ادارہ ہے۔ اگرچہ جموںوکشمیر احتساب ایکٹ ابتداء میں کئی نقائص سے پرتھالیکن سرکاری مداخلت نے اس کے پہلے چئیر مین جسٹس سیٹھی کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کردیا اور بعدازاں اس ایکٹ میںایسی ترامیم کردیں جس کے باعث یہ ایکٹ اور احتساب کمیشن محض عضوئے معطل بن کر رہ گیاہے۔ آج کئی برسوں سے قائم اس کمیشن نے ایک فیصلہ تک بھی صادر نہیںکیاہے۔ احتساب کمیشن کے موجودہ چئیرمین نے سارے احتسابی سسٹم کو ناکافی قراردیا ہے ، جب کہ ایک اورممبر نے سرعام کہہ ڈالا کہ احتساب قانون بغیر دانتوں کے گدھے کے موافق ہے۔ معلوم نہیں اس احتساب قانون کے اختیارات کی یہ بدصورت کتر بیونت کر نے کے باوجود بھی اس کے ممبران نے ادارے کی رُکنیت کیونکرقبول کر لی ہے، یہ ماجرا وہی بتاسکتے ہیںاور ہمارا مانناہے کہ اخلاقی جرأت کا مظاہر ہ کر کے انہیںیہ گرہ کشائی کرنی چاہئے۔ بہر کیف اس میں دورائے نہیں کہ جموں وکشمیر میں قائم کئے گئے دیگر کمیشنوں کی طرح اس کمیشن کی حیثیت بھی محض نمائشی ہے اور عملاً یہ ایک ناکارہ اور ناکام ادارہ ثابت ہواہے۔اندریں حالات لازمی ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے رشوت اوربھرشٹاچار کو کم از کم جزوی طورپر روکنے کے لئے لوک پال قانون کو بستۂ خاموشی سے نکال کر اسے باہر کی ہوا دکھاتے ہوئے نافذ العمل کیا جائے اور اس کے تحت لوک پال کمیشن قائم کیا جائے ، جب کہ ریاست جموںوکشمیر میںموثر احتساب قانون بنایا جائے ، ورنہ قصہ مختصر کرکے نمائشی احتساب کمیشن کو سرے سے ہی ختم کیا جائے۔ البتہ عوام سے ہماری یہی مخلصانہ اپیل اور فہمائش ہوگی کہ وہ رشوت اور بھرشٹاچار کے خلاف موثر آواز بلند کرتے ہوئے اس کے جڑ سے انسداد کے لئے اپنی آواز موثر لب ولہجہ میں بلند کرتے رہیں، وگرنہ رشوت اور بھرشٹاچار کی لعنت اس ملک اور یہاں رہ رہے جنتا کا بیڑہ غر ق کردے گی۔