یو این آئی
نئی دہلی// لوک سبھا میں منظور ہونے کے بعداقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2025 اور مسلم وقف (منسوخ) بل 2025 پیش کیا۔لوک سبھا میں اس ترمیمی مسودہ قانون پر بدھ کے روز 12گھنٹے کی طویل بحث ہوئی جس کے بعد اس پر ووٹنگ ہوئی اور حکمران جماعت نے عددی اکثریت کیساتھ اس بل کو منظور کرایا۔جمعرات کو ترمیمی بل راجیہ میں بحث کیلئے پیش کیا گیا۔رات دیر گئے تک بل پر بحث ہوتی رہی اور ظاہر سی بات ہے کہ حکمران جماعت کو یہاں بھی اکثریت حاصل ہے اور بل منظور ہوجائیگا۔ قاعدے کی رو سے بل صدر جمہوریہ کو دستخط کیلئے بھیجا جائیگا جس کے بعد یہ باضابطہ قانون بن جائیگا۔وزیر موصوف نے راجیہ سبھا میں بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں لائے گئے ہیں بلکہ وقف بورڈ کی جوابدہی، شفافیت اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے لائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بل نے ملک میں ایک نئی صبح لائی ہے اور اسی لیے اس ایکٹ کو ‘امید’ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس میں کلکٹر سے لے کر بورڈ تک ہر فرد کے کردار کو شفافیت کے ساتھ جوابدہ بنایا گیا ہے ۔ اس کا مقصد سب کو بااختیار بنانا ہے ۔ اس سے جہاں زمینوں پر قبضے کے من مانی عمل کو روکا جائے گا وہیں اس سے لاکھوں غریب مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی۔ رجیجو نے کہا کہ اب وقف بورڈ کا مرکزی ڈیٹا بیس ہوگا اور تمام وقف املاک کو مکمل طور پر رجسٹر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں وقف بورڈ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جائیداد ہے لیکن غریبوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے ۔مرکزی وزیر نے کہا کہ آج سے پہلے اتنے غورو خوض کے بعد کوئی بل نہیں لایا گیا ہے ۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اس بل کا مسودہ تیار کرنے سے پہلے پورے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت کی تھی۔ اس کے بعد 284 تنظیموں اور تمام سٹیک ہولڈرز نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے میمورنڈم پیش کیا اور 97 لاکھ لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مشترکہ کمیٹی نے دس شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں سے بات کی۔ اس طرح اس بل پر ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔انہوں نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ یہ بل غیر آئینی اور مسلمانوں کے حقوق چھیننے والا ہے اور کہا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی مداخلت نہیں ہوگی۔ متولی جو وقف بورڈ کا انتظام کرتا ہے وہ مسلمان ہی رہے گا۔ رجیجو نے کہا کہ اس بل کو لانا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ 5 مارچ 2014 کو لوک سبھا انتخابات کے لئے ماڈل ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے عین قبل کانگریس کی قیادت والی حکومت نے دارالحکومت دہلی میں 123 اہم جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کیا تھا اور ان سے متعلق مقدمات عدالت میں زیر التوا ہونے کے باوجود انہیں وقف بورڈ کے حوالے کر دیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً تشکیل دی گئی تینوں کمیٹیوں کی سفارشات کو موجودہ بل میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس میں کانگریس کے دور میں بنائی گئی کمیٹی بھی شامل ہے ۔ رجیجو نے کہا کہ مجوزہ بل میں تمام طبقات جیسے شیعہ، سنی، پسماندہ وغیرہ کو نمائندگی دے کر وقف بورڈ کوشمولیاتی بنایا گیا ہے ، اس کے علاوہ بورڈ میں دو مسلم خواتین کی نمائندگی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ انہوں نے ان الزامات کو بھی مسترد کردیا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی اکثریت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرنے سے پہلے متعلقہ دستاویزات بورڈ کو دکھانے ہوں گے صرف کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ غلط استعمال کو روک دے گا۔مرکزی وزیر نے کہا کہ ٹریبونل کی مدت مقررہ ہوگی۔ اس وقت ٹربیونل میں 31 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، اس لیے اب اس میں اراکین کی تعداد بڑھا کر تین کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب اپیل کا حق کھل گیا ہے اور انصاف نہ ملنے پر لوگ اعلیٰ عدالت میں جا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقف کے پاس اس وقت 4.9 لاکھ جائیدادیں رجسٹرڈ تھیں اور اس کی سالانہ آمدنی 160 کروڑ روپے تھی۔ رپورٹ کے مطابق اگر اس کا مؤثر طریقے سے انتظام کیا جاتا تو اس سے 12 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہونی چاہیے تھی۔ اب وقف کے پاس 8.7 لاکھ کی جائیداد ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے کتنی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے ریاستی وقف بورڈ کو وسیع بنائے جانے کی ضرورت بتائی اور کہا کہ اس میں جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کو شامل کیا جانا چاہئے ۔