سرینگر//وادی کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں تعلیم کی صورتحال میں بہتری لانے کےلئے متعدد اقدامات کے اعلانات کئے جانے کے باوجود سرکاری اسکولوں کی حالت بتدریج ابتر ہوتی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور اساتذہ کی عدم موجودگی ہے ۔ اساتذہ کی کمی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کئے جانے کے سبب نہ صرف والدین پریشانی میں مبتلاءہیں بلکہ موجودہ اساتذہ پر اضافی خدمات کے بوجھ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لولاب کے علاقہ موری کلاروس کے اکثر اسکولوں میں اساتذہ کی قلت اوربنیادی سہولتوں کے فقدان کے باعث والدین میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔کشمیر عظمیٰ کے دفترپر علاقے سے آئے ایک وفد نے بتایا”2015-16میں رمسا کے تحت موری میں ایک ہائی اسکول قائم کیا گیا جہاں اول سے دسویں جماعت تک 250طالب علم زیر تعلیم ہیں جن کے لئے ایک7اساتذہ درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ ریاضی پڑھانے کے لئے کوئی بھی استاد دستیاب نہیں ہے ۔وفد کے مطابق ایساہی حال علاقے کے کئی پرایمری اور مڈل اسکولوں کا ہے جہاں 100سے زائدطلباءکے لئے صرف 1استاد اپنے فرائض انجام دے رہا ہے ۔وفد نے کہا کہ جب والدین نے مذکورہ اسکولوں کے سربراہوں سے اس حوالے سے رابطہ قائم کیا تو وہ بے بس نظر آرہے ہیں ۔وفد نے مزیدکہا کہ اسکولوں میں بنیادی سہولتوں جیسے پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔اس حوالے سے انچارج ہیڈ ماسٹر ہائی سکول موری غلام محمد میر نے کشمیر عظمیٰ کوبتایا”2014-15میں رمسا سکیم کے تحت دیگر 2سکولوں ’مڈل اسکول گول لولاب اور ڈبل مژل اسکول‘ سمیت اسکول کو مڈل اسکول سے ترقی دیکر ہائی اسکول میں تبدیل کیا گیا لیکن اساتذہ کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ لولاب اور مژھل میں 12اساتذہ کام کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے حوالے سے چیف ایجوکیشن آفیسر کپوارہ کے دفتر میں ایک درخواست بھی دی گئی ہے جس پر اب تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔اس ضمن میں ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن سے مسلسل فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون اٹھانے کی زحمت گوارانہیں کی ۔