خطہ پیر پنچال کو وادی سے ملانے والی مغل شاہراہ کے بعد دوسری سب سے اہم لورن۔ٹنگمرگ سڑک کی تعمیر کاکام اس قدر سست روی کاشکار ہے کہ ابھی تک صرف 8سے 9کلو میٹر تک زمین کی کٹائی کی گئی ہے ۔ یہ روڈ بڑا پتھر،جمیاں والی گلی، بسماں گلی ،دودھ پتھری سے ہوتے ہوئے پونچھ کے خطے کوکشمیرسے ملاتی ہے، جس کی تعمیرکاکام اکتوبر 2015 میں شروع ہواتھا۔تعمیر کے کام کی افتتاحی رسم کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اعلان کیاتھاکہ سڑک کی تعمیر کے منصوبے کو دوسال میں مکمل کیاجائے گا اور اس سلسلہ میں انہوںنےتعمیری کام کے لئے ذمہ دار محکمہ گریف کو ہدایات بھی جاری کیں لیکن ڈھائی سال گزر جانے کے بعد بھی آٹھ سے نو کلو میٹرتک زمین کی کٹائی ممکن ہوسکی ہے۔خالی زمین کی کٹائی کئے جانے سے پورے کا پورا علاقہ کھسک رہاہے اور لوگوں کے گھروں و اراضی کو نقصان پہنچنے کا شدید احتمال بھی پیدا ہوا ہے ۔روڈ کی تعمیر باڈر روڈ آرگنائزیشن کے ہاتھ میںہے اور اس اہم پروجیکٹ پر سست روی کو دیکھتے ہوئے مقامی لوگوں کا تعمیراتی ایجنسی پر اعتماد ہی ختم ہوگیاہے جنہوںنے حکومت سے یہ مطا لبہ کرنا شروع کردیاہے کہ یہ کام باڈر روڑس آرگنائزیشن (BRO) سے لیکر کسی نجی تعمیراتی ایجنسی کو دیاجائے تاکہ اس کی تکمیل جلد ہوسکے ۔لوگ اس قدر برہم ہیں کہ انہوںنےانتظامیہ کو منتبہ کیا ہے کہ اگر کام میں سرعت نہ لائی گئیتو وہ ہموار کئے گئے راستے پرفصلوں کی کاشت شروع کرینگے۔واضح رہے کہ خطہ پیر پنچال کی تعمیروترقی اور اس خطے کے وادی کشمیر کے ساتھ روابط کیلئے مغل شاہراہ کے بعد لورن۔ٹنگمرگ سڑک کوخاصی اہمیت کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے تاہم تعمیر ی کام کی موجودہ رفتار کو دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ اسکی تکمیل میں ابھی برسہابرس درکار ہوں گے۔42کلو میٹر لورن۔ٹنگمرگ سڑک کی تکمیل کے لئےبی آر او کو 2018کا ہدف دیا گیا۔لیکن حقیقت حال پریشان کن ہے ۔2018کا سال تیزی سے آگے بڑھ رہاہے لیکن کام میں سرعت لائے جانے کے بجائے دن بدن اس میں سست روی ہی آرہی ہے ۔اس سڑک کی تعمیر سے قبل ریاستی حکومت نے خطہ پیر پنچال کو وادی سے جوڑنے کے لئے مغل شاہراہ کی تعمیر عمل میں لائی لیکن لورن ٹنگمرگ سڑک مغل شاہراہ سے بھی کم مسافت والی سڑک ہے اوراس کا ایک فائدہ یہ بھی رہے گاکہ یہ سال کے بیشتر حصہ میں قابل آمدورفت ہوگی۔خیال رہے کہ مغل شاہراہ موسم سرما کے دوران برفباری کے باعث کم از کم چار سے پانچ ماہ تک بند رہتی ہے ،جس دوران خطہ پیر پنچال کے لوگوں کو کشمیر پہنچنے کیلئے جموں کار استہ اختیار کرناپڑتاہے جو نہ صرف طویل اور تھکادینے والاسفر ہے بلکہ اس پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں اور قیمتی وقت بھی صرف ہوتاہے۔یہ روڈ جہاں حویلی ، منڈی اور دیگر علاقوں کے لوگوں کیلئے کشمیر پہنچنے کی خاطر سب سے آسان اور کم مسافت والا راستہ بنے گاوہیںاس سے نئے نئے سیاحتی مقامات کی بھی نشاندہی ہوگی اور اس طرح سے سیاحتی شعبے میںترقی کیساتھ اس سڑک سے منسلک دور دراز مقامات میں روزگار کے نئے مواقع پید اہوںگے۔مغل روڈ کی طرح اس کی تعمیر بھی خطے کی اقتصادی و سماجی ترقی میں نئے ابواب کا اضافہ کرے گی ۔یہاں مغل شاہراہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا،جس کی اپنی ایک تاریخ اور پہچان ہے، لیکن لورن۔ٹنگمرگ سڑک کی تعمیر بھی ناگزیر ہے جو ترقی کے نئے دروازے کھولنے پر منتج ہوگی۔اگرچہ حکام کا دعویٰ ہے کہ کام میں سست روی کی وجہ سڑک کا مشکل حصہ ہے اور اب آگے کے کام میں اتنا زیادہ وقت نہیں لگے گاکیونکہ اگلا حصہ تعمیری لحاظ سے آسان ہوگاتاہم علاقہ کتنا بھی دشوار گزار کیوں نہ ہو ، ڈھائی سال میں صرف آٹھ سے نو کلو میٹر کی کٹائی سے یہ اندازہ ہوجاتاہے کہ یہ پروجیکٹ نہایت ہی سست روی کاشکا رہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم اور وقاری پروجیکٹ کے تعمیر ی کاممیں سرعت لائی جائے اور کم سے کم وقت میں اس کی تکمیل کو یقینی بنایاجائے اگر بی آر او کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے تو کام کسی نجی کمپنی کے سپرد کرنے کا لوگوں کا مطالبہ حق بجانب سمجھاجائے گا۔