برطانیہ نے جب امریکی ایماء کی حمائت میں افغانستان اورعراق میں نیٹوکی زیرقیادت اپنی افواج کوجنگی کاروائیوں میں حصہ لیناشروع کیاتھا،تواس وقت اسے اندازہ نہیں تھاکہ اس کی سرزمین پربھی جوابی حملے ہوسکتے ہیں لیکن ’’سیون سیون‘‘کے واقعے نے برطانیہ کوہلاکررکھ دیاتھا جس کے بعدبرطانیہ میں سیکورٹی کے غیرمعمولی اقدامات سے صورتحال کافی حدتک بہترہوگئی تھی لیکن برطانیہ کوپچھلے تین ماہ کے واقعات نے ایک مرتبہ پھردہلاکررکھ دیاہے تاہم اس مرتبہ یہ واضح عوامی تبدیلی دیکھنے کومل رہی ہے کہ بہت سے ارکانِ پارلیمنٹ اورسیاسی تجزیہ نگاریہ کہہ رہے ہیں کہ شدت پسندوں کواپنے مقاصدکیلئے استعمال کرنے سے متعلق پالیسیاں آج ان کے ملک کویہ دن دکھارہی ہیں۔مانچسٹر ایرینا میں ہونے والے کنسرٹ میں ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں کم از کم ۲۲/ افراد ہلاک اور ۶۰کے قریب زخمی ہوگئے۔۱۹۱۶مانچسٹر پولیس کا کہنا ہے کہ مانچسٹر ارینا میں حملہ کرنا والا مشتبہ خودکش حملہ آور ۲۲سالہ سلمان عبیدی تھا۔وہ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کومانچسٹر میں پیدا ہوا اور اس کے والدین کا تعلق لیبیا سے ہے۔اس کے والدین کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف تھے اور لیبیا سے بھاگ کر انہوں نے برطانیہ میں پناہ لی تھی۔ اس فیملی نے چند برس لندن میں گزارے اور اس کے بعد وہ مانچسٹر منتقل ہوگئے جہاں اس کے والد ڈِڈسبری کی مسجد میں اذان بھی دیا کرتے تھے۔ سلمان عبیدی کے تین بہن بھائی ہیں،ایک بڑا بھائی لندن میں پیدا ہوا اوراس سے چھوٹی ایک بہن اور بھائی مانچسٹر میں پیدا ہوئے۔عبیدی نے مقامی سکولوں میں تعلیم حاصل کی، وہ فٹ بال کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کا حامی تھا اور ایک بیکری میں کام کرتا تھا۔عبیدی سیلفورڈ یونیورسٹی کا طالب علم بھی رہا لیکن وہاں سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔ اس کے والدین دوبچوں سمیت لیبیا واپس چلے گئے جب کہ سلمان یہیں رہ گیا۔ یہ کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر گیا تھا اور چند روز پہلے ہی برطانیہ واپس لوٹا تھا۔
مانچسٹر برطانیہ کا وہ شہر ہے جہاں لیبیائی نژاد افراد کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ہمسایوں کا کہنا ہے کہ اس خاندان کے گھر پر بعض اوقات لیبیا کا جھنڈا بھی لہرایا کرتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ فیملی مانچسٹر میں مختلف گھروں میں رہ چکی ہے اور ان کی سابقہ رہائش بھی ان جگہوں میں شامل ہے جہاں پر پولیس نے چھاپے مارے ہیں۔بی بی سی کے مارک ایسٹن کا کہنا ہے کہ شام اور لیبیا سے کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنے والے ایسے کئی شدت پسندوں کے گھر اسی علاقے میں تھے جہاں پولیس نے چھاپے مارے ہیںتاہم ابھی تک سارے ملک میں ان افرادکی تلاش جاری ہے جن کاکوئی بھی تعلق کسی ایسی تنظیم سے ہوجوملک کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
سلمان عبیدی کا ایک دوست محمد الشریف جس کاتعلق بھی مانچسٹرسے ہے اوروہ پچھلے تین برسوں سے لیبیامیں خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی تنظیم میں شامل ، لڑنے کے لیے لیبیا آگیاتھا،نے لیبیامیں مقیم بی بی سی کے نامہ نگار کوئنٹن سمروئیل سے گفتگوکرتے ہوئے انکشاف کیاکہ۲۰۱۱ء میں کرنل قذافی کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے کے لیے کئی نوجوان برطانیہ سے لیبیا گئے تھے۔ اس وقت جو بھی لیبیا آناچاہتا تھا وہ آسکتا تھا۔ محمد الشریف نے تسلیم کیاکہ وہ اور سلمان عبیدی ایک وقت میں اچھے دوست بھی رہ چکے ہیںلیکن میری سلمان سے پچھلے پانچ برس سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ مجھے پورایقین ہے کہ سلمان کا دولت اسلامیہ سے رابطہ لیبیا میں ہوا تھا جہاں اس کومکمل برین واش کیاگیا۔دولت اسلامیہ اندرون ملک بھرتیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے اوروہ اپنے ان مذموم مقاصدکیلئے ایسے نوجوانوں کی تلاش میں رہتے ہیں ،وہ ان کو ڈھونڈتے ہیں، راضی کرتے ہیں اور ان سے یہ کام کروا لیتے ہیں۔ان کومذہب کے نام پرورغلاکرجنت کی ایسی ترغیب دیتے ہیں کہ اپنے مقاصدکیلئے خودکش بمباربننے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ میں تین سال سے زیادہ عرصے سے جنگ لڑ رہا ہوںلیکن میں جا کر اپنے آپ کو دھماکے سے نہیں اڑاؤں گاکیونکہ میں نے بہت زیادہ خون دیکھا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وہ خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کی سوچ اور نظریے کے خلاف ہے۔ اسے خود دولت اسلامیہ کی شدت پسندوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے بھی فلم بند کیا گیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اسے ایسا کرنے پر افسوس ہے لیکن وہ موت کے مستحق ہیںکیونکہ انہوں نے کئی افراد کو قتل کیا ہے۔
برطانیہ۷۰ء کی دہائی میں آئرش علیحدگی پسندوں کی جانب سے ہونے والے دہشت گردی کے متعدد حملوں کو سہہ چکا تھا لیکن۲۰۰۵ء سے وہ خود کش حملہ آوروں سے نبرد آزما ہے۔ مانچسٹر ایرینا میں ہونے والاکوئی پہلا خودکش حملہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی جولائی۲۰۰۵ء میں لندن کی ٹرانسپورٹ پر ہونے والے سلسلہ وار بم حملوں میں چار خود کش حملہ آوروں نے حصہ لیا تھا۔برطانوی پولیس کے مطابق لیڈز میں پیدا ہونے والاایک نوجو ان جوان حملہ آوروں کا سرغنہ تھا، نے لندن کے ایجویئر روڈ سٹیشن پر سرکل لائن پر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا جس میں حملہ آور سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس کا دوسراساتھی بریڈ فورڈ میں پیدا ہونے والے نوجوان تھا،اس نے بھی اپنی زندگی کا زیادہ حصہ لیڈز میں گزارا تھا۔ سپورٹس سائنس میں گریجویشن کرنے والے اس نوجوان نے سرکل لائن پر آلگیٹ اور لیور پول سٹیشن کے درمیان خود کو دھماکہ سے اڑا لیا تھا۔ اس حملے میں سات افراد ہلاک اور ۱۰۰سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ لیڈز کے علاقے ہی میں پیداہونے والے تیسرا نوجوان خوکش حملہ آو رجس کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی ،جواپنے والدین کے ساتھ یہاں رہائش پذیرتھا ۔ان سب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ وہ تینوں تارکین وطن کی اولاد تھے جنھوں نے بریڈفورڈ اور لیڈز کے پسماندہ علاقوں میں پرورش پائی تھی اوربیروزگارتھے۔لندن کے چوتھاواحد خود کش حملہ آور تھاجو برطانیہ میں نہیں بلکہ جمیکامیںپیدا ہواتھا۔ وہ ایک سال کاتھا جب وہ اپنی ماں کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوگیاتھا۔اس نے ویسٹ یارکشائر کے علاقے ہڈرزفیلڈ میں پرورش پائی جہاں اس کی ملاقات لندن حملہ آوروں کے مبینہ سرغنہ سے ہوئی تھی۔
لندن میں خود کش حملوں کے بعد دہشت گردی کا بڑا واقعہ ۳۰جون۲۰۰۷ء کو سکاٹ لینڈ میں ہوا جہاں دو حملوں آوروں نے پروپین کے ڈبوں سے بھری گاڑی کو گلاسگو ایئرپورٹ میں گھسانے کی کوشش کی۔ اس حملے میں دونوں حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب تو نہ ہو سکے لیکن ایک حملہ آور گاڑی کے جلنے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ دوسرا حملہ آور زندہ پکڑا گیا اور اب بھی برطانیہ کی جیل میں عمر قید کی سزاکاٹ رہا ہے۔پولیس کے مطابق دونوں خود کش حملہ آور انتہائی تعلیم یافتہ ،ایک کوالیفائڈا ڈاکٹر جب کہ دوسراکوالفائیڈ انجنیئر تھالیکن اس مرتبہ اوپرتلے تین خودکش حملوں کے اس تسلسل کے بعدعوام میں خاصی تشویش اوربہت سے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں کہ عوام اس وجوہات کوجاننے کیلئے بے چین ہیں ۔
اس کی واضح مثال آسٹریلیامیں پیداہونے والے مشہوربرطانوی صحافی اورڈاکومینٹری فلمسازجان پلچرنے اپنے حالیہ مضمون میں انکشاف کیاہے کہ مانچسٹرمیں خودکش حملہ کرنے والا۲۲سالہ سلمان عابدی ’’لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ‘‘(Libiyan Islamic Fighting Group) کاحصہ تھاجومانچسٹرمیں پھلتاپھولتارہاجس کی برطانیہ کی مشہورخفیہ ایجنسی ایم آئی فائیونے پچھلے بیس سال سے آبیاری کی اوراسے اپنے مقاصد کیلئے پہلے کرنل قذافی کی حکومت گرانے اوربعدازاں شام میں حافظ الاسدکی حکومت گرانے کیلئے استعمال کیاگیا۔جان پلجرکے مضمون کے مطابق امریکااوربرطانیہ کاافریقہ اورلیبیا کے تیل کے بڑے ذخائرپرکنٹرول رکھنے والے قذافی حکومت کوگرانے کاپرانامنصوبہ تھا۔فرانسیسی انٹیلی جنس کے مطابق برطانیہ کی سیکرٹ ایجنسی کی مددسے ایل آئی ایف جی نے ۹۰ء کی دہائی میں کرنل قذافی پرمتعددقاتلانہ حملے کئے جوسب ہی ناکام ہوگئے، تاہم مطلوبہ نتائج نہ ملنے پرلیبیائی عوام کے قتل عام کاجوازبناکرمارچ ۲۰۱۱ء میں امریکانے فرانس اوربرطانیہ کے تعاون سے حملہ کردیااورقذافی کی حکومت کونیست ونابودکرنے کے بعد وہاں امریکی اوربرطانوی افواج کاستقبال کرنے والے یہی ایل آئی ایف جی کے ارکان تھے جواب داعش سے متاثرہوکربرطانیہ کیلئے دردِ سربن گئے ہیں۔
جان پلچرکے مطابق ناقابل تردیدشہادتیں موجودہیں کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے جب وزیرداخلہ تھیں تو(ایل آئی ایف جی)کے جہادیوں کوبلا روک ٹوک سارے یورپ میں سفرکی کھلی اجازت دی گئی تھی اورانہیںپہلے معمرکرنل قذافی کی حکومت گرانے اوربعدازاں شام حافظ الاسدکی سرکاری فوجوں کے ساتھ لڑنے کیلئے القاعدہ سے منسلک گروپوں میں شمولیت اختیارکرنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔کرنل قذافی حکومت گرانے کے بعد’’ایل آئی ایف جی‘‘نے لیبیاکوایک اسلامی ریاست بنانے کیلئے القاعدہ کے عالمگیرموومنٹ کاساتھ دینے کی خواہش کاعملی اظہارکیاتواسے برطانیہ میں ایک دہشت گردقراردے کران پرہرقسم کی پابندی لگادی گئی۔جان پلچرنے اپنے مضمون میں یہ بھی انکشاف کیاکہ گزشتہ برس امریکی ایف بی آئی نے سلمان عابدی کودہشت گردوں کی واچ لسٹ میں شامل کرلیاتھاجب کہ مانچسٹرخودکش حملے سے تین ماہ قبل ایم آئی فائیوکویہ انٹیلی جنس اطلاع بھی دی گئی تھی کہ سلمان عابدی برطانیہ کی سرزمین پرحملے کی منصوبہ بندی کررہاہے۔جان پلچرنے برطانوی حکام سے یہ سوال کیاہے کہ اس مستنداطلاع کے باوجود بھی مانچسٹرخودکش حملہ روکنے کیلئے سلمان عابدی اوراس کے نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟
برطانیہ کے تاحیات پاکستانی نژادلارڈنذیراحمدنے چارسال پہلے برطانوی اخبار’’گارجین‘‘میں اپنے ایک مضمون میں متنبہ کیاتھاکہ ’’ڈیوڈکیمرون نے امریکااوردیگریورپی ممالک کے ساتھ جواقدامات کئے اورجس طرح برطانیہ میں موجودلیبیائی نوجوانوں کوان کے ملک بھیجاگیا،یہ سب کچھ ملک کوبہت زیادہ نقصان پہنچائے گاکیونکہ قذافی حکومت کوگرانے کے بعدیہ سب لوگ برطانیہ واپس آگئے ہیں۔لارڈاحمدکے مطابق وہ اس بات کے چشم دیدگواہ ہیںکہ کس طرح برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے کرنل قذافی کے خلاف لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔لارڈاحمدنے بتایا۔۔۔۔’’میں ان دنوں لیبیاکے حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تریپولی پہنچاہواتھا،قذافی حکومت اوراپوزیشن کے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ میری قریبی تعلقات تھے۔میری انتہائی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے قذافی اوراس کے اہل خانہ کی جان بچ جائے اورپرامن اقتدارکی منتقلی ہوجائے۔میں متعلقہ افرادسے بات چیت کررہاتھاکہ قذافی اوراس کے خاندان کے تمام افرادکوباعزت طریقے سے کسی دوسرے ملک میں منتقل کردیاجائے جس کیلئے روس اوریوکرین سیاسی پناہ دینے کیلئے بھی تیار تھے۔قذافی ویسے بھی یوکرین سے کافی نزدیک تھے اورقذافی کی سب سے قابل اعتمادنرس کاتعلق بھی یوکرین سے تھالیکن میری ساری کوششیں امریکااوربرطانیہ کی ضدکی وجہ سے ناکام ہوگئیں کیونکہ یہ دونوں ممالک ہرحال میں قذافی اوراس کے سارے خاندان کاصفایاچاہتے تھے کہ تاکہ مستقبل میں کبھی اس خاندان کے ابھرنے کی امیدباقی نہ رہے۔
برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی آراء کے مطابق برطانیہ میں اوپرتلے ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کررہی ہیںاوران میں ایک سازشی تھیوری زبان زدِ عام ہے کہ داعش کنزرویٹوپارٹی کوسپورٹ کرنے کیلئے حملے کررہی ہے لیکن بظاہرزمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے لیکن متذکرہ سازشی تھیوری پیش کرنے والے دلائل کے طورپرمارچ میں ویسٹ منسٹربرج پرہونے والے واقعے کی مثال دیتے ہیں جس میں جنونی دہشت گردنے بالکل اسی طرح پانچ شہریوں کواپنی گاڑی تلے روندکر ہلاک کردیاتھاجیسے ابھی حال ہی میں لندن برج اوربورومارکیٹ میں سات افرادکووین تلے کچل کرموت کے گھاٹ اتاراگیا۔ویسٹ منسٹربرج پرہونے والے واقعے کے بعد وزیراعظم تھریسا مے کی مقبولیت میں ۲۰فیصداضافہ ہواتھا۔حالیہ دہشت گردی وقعہ کے بعدتھریسامے کے یہ بیان بڑاغورطلب ہے کہ ماضی میں جس طرح انتہاء پسندی کوبرداشت کیاجاتارہا،اب وقت آگیاہے کہ یہ سلسلہ ختم کردیاجائے۔ان کے اس مؤقف کوزبردست عوامی پذیرائی مل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قبل ازیں نیامینڈیٹ نہ لینے کااعلان کرنے والی تھریسامے نے اب اپنامؤقف تبدیل کرلیاہے۔لارڈنذیراحمدکے مطابق سازشی تھیوری رکھنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیںکہ مانچسٹرحملے سے پہلے تھریسامے کی مقبولیت میں کمی آگئی تھی حتیٰ کہ ویلز میں بھی ان کی مقبولیت متاثرہوئی تھی، تاہم اس حملے کے بعدانتہاء پسندی کے خلاف برطانوی وزیراعظم کے مؤقف نے مقبولیت حاصل کرلی جس کایقیناً انہیں ۸؍جون کوہونے والے الیکشن میں فائدہ توہوالیکن تھریسا مے نے جب انتخابات کا اعلان کیا تھا اس وقت کے مقابلے میں اب انہیں ۱۲نشستیں کم حاصل ہوئی ہیں اوروہ اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئیں اور شمالی آئر لینڈ کے ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی(ڈی یو پی)کی مددسے حکومت بنانے کااعلان کیاہے لیکن تھریسامے پردوسری سیاسی جماعتوں کی شدیدتنقیدجاری ہے۔ لبرل ڈیموکریٹک رہنما ٹم فیرن کا کہنا ہے انہیں 'شرمندہ ہونا چاہیے اور اگر ان میں ایک اونس بھی اپنی عزت ہے توانہیں مستعفی ہونا چاہیے جب کہ دوسری اکثریتی جماعت لیبرپارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے ٹریزا مے سے کہا ہے کہ وہ حکومت سازی سے دستبردار ہو جائیں۔بہرحال اب یہ طے ہے کہ تھریسامے کو اپنے دورحکومت میںاپنے ہاتھوں کی بوئی فصل کوتلف کرنے میں عجلت دکھائیں گی۔
یادرہے کہ اس مرتبہ عام انتخابات میں مجموعی طور ۵۶انڈین نژاد امیدوار جب کہ ۳۰پاکستانی نژاد امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے جہاں ۱۲؍پاکستانی نژاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ِوہاں انڈین نژاد امیدواروں کی تعداد بھی ۱۲ہی رہی جب کہ سیاسی تجزیہ نگاراس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عین چنددن قبل ان دہشت گردحملوں نے صرف پاکستانی نژاد امیدواروں کونقصان پہنچایاوگرنہ کم ازکم بیس پاکستانی نژادامیدواروں کی کامیابی کی توقع تھی۔ کامیاب ہونے والے۱۲؍پاکستانی نژاد امیدواروں میں سے نو کا تعلق لیبر پارٹی جب کہ تین کا کنزرویٹو سے ہے اور ان میں سے پانچ خواتین ہیں اورکامیاب انڈین نژاد ارکانِ پارلیمان میں سے سات کا تعلق لیبر پارٹی سے جب کہ پانچ کنزرویٹو پارٹی سے ہے اور ان میں چھ خواتین ہیں۔