جھیل ڈل کا بغور جائزہ لینے کے بعد یاور ؔ نے مانجھی کو اشارہ کر کے بلایا اور کہا۔
’’ہمیں جھیل کی سیر کروائوگے۔‘‘
وہ جلدی کرتے ہوئے بو لا۔’’آئیے صاحب بیٹھئے۔میں ساری جھیل گھما لے آوںگااور محنتانہ بھی مناسب ہی لوں گا۔‘‘
اتنے میںبھیڑ لگ گئی ہر ایک مانجھی انھیں اپنی طر ف رجھانے کی کوشش کرتا رہا۔یاورؔ اور شبنمؔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاںاترتے کشتی میں بیٹھ گئے ۔
’’صاحب مجھے یقین تھا کہ آپ میری ہی کشتی میں بیٹھیں گے، آپ نے مجھے بلایا تھا۔‘‘
’’مجھے تمہا ری کشتی پسند آئی ۔تم نے خوب سجایا ہے اس کو ۔‘‘
’’ صاحب!لگتا ہے نئی نئی شادی ہوئی ہے ۔‘‘
اس پر یاور ؔ نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس کی چپی دیکھ کر مانجھی کچھ توقف کے بعد پھر بولا۔
’’صاحب! آپ کی جوڑی بہت اچھی لگتی ہے۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔‘‘
یاور ؔ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی پھر خاموشی توڑتے ہوئے اسے پوچھا۔
’’کیا نام ہے تمہارا۔‘‘
’’صاحب! رحیم۔۔۔۔۔۔لوگ مجھے رحیم مانجھی کہتے ہیں۔میں ’گلفام‘ کا مالک ہوں ۔‘‘
’’گلفام‘‘یاور ؔ کچھ سوچنے ہی لگا تھاکہ رحیم مانجھی بے تابی سے بولا۔
’’ میرے ہاوس بوٹ کا نام ہے۔خوب سجا کے رکھا ہے اس کو۔کشمیر کے تمام قدرتی منا ظر کی تصویریں اس میں آ ویزان رکھیں ہیں۔صاحب ایک بار کوئی اس میں ٹھہر جائے توکشمیر گھومنے کی ضرورت نہیں رہتی۔‘‘
’’پھر تو ہم ضرور کچھ وقت کے لئے تمہارے ہاوس بوٹ میں ٹھہر یں گے۔‘‘
یہ سن کر رحیم مانجھی بہت خوش ہوااور اپنی سریلی آواز میںگیت چھیڑتے ہوئے کشتی زور زور سے کھینے لگااور وہ دونوں بھی جھیل کی ابھرتی ڈوبتی لہروں میں کھو سے گئے ۔ان کے بدن عشق کی آگ میں تپ رہے تھے۔ مگر دونوں جھیل کے پانی میں ہاتھ ڈبوتے رہے اوربدن کی تپش کم کرنے کی کوشش کرتے رہے پھر یاور کچھ دیر بعداس سے بولا ۔
’’شبو! تم بہت خوبصورت ہو۔تم میری راتوں کو کب حسین بنائو گی۔‘‘
یاورنے بے صبری سے اس کا ہاتھ پکڑا۔اس کے نرم ونازک ہاتھ کو چومتا رہا۔وہ ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔
’’یاور تھوڑا انتظار کرو۔کچھ ہی دنوں کی بات ہے میں تمہاری دلہن بنوں گی۔ ‘‘
’’او۔۔شبو! تم کتنی اچھی ہو۔‘‘
یاور اس کے زانو پر سر رکھ کر جھیل کے پانی سے کھیلتا رہا۔پیار بھری نظروں سے اس کو تکتا رہا۔
شبنم !اس پر فریفتہ ہو چکی تھی اس کی اصلیت جاننے کے بعد بھی وہ اس کے ساتھ بیاہ کرنے کے لئے تیار تھی۔ وہ دلہن بننے کے لئے اتاولی تھی اور صرف یاور کی بننا چاہتی تھی۔
حالانکہ اس کی خوبصورتی کے بیسیوں دیوانے تھے اس سے کوئی بھی شادی کر لیتا۔وہ جب کوچے سے گزرتی تو عاشقوں کی بھیڑ لگ جاتی۔وہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔۔
’’شبو ! ایک نظر ادھر بھی۔۔۔۔ایک لمحہ۔۔۔بس ایک لمحہ ۔۔۔ ہمیں بھی دو۔‘‘
پھر اس دن سبھوں کو سانپ سونگھ گیاجب شبنم نے یاور سے بیاہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس فیصلے پر سب حیران وپریشان لگ رہے تھے کیونکہ اس نے کانٹوں بھری سیج اپنے لئے چن لی تھی یاور کا ہاتھ تھام کر ۔جو وقت کے نمرودؔ سے بیعت کا انکاری تھااس کے گھومنے پھرنے کی حدیں محدود کر لی گئیں تھیںوہ چھپتے چھپاتے بڑی دقعتوں کو جھیل کر جھیل ڈل کی سیر کرنے آئے تھے
رحیم مانجھی انھیں ساری جھیل گھما کر لایاپھر گلفام کی طرف بڑ ھتے ہوئے بولا۔
’’صاحب ! چلئے گلفام باہیں پھیلائے منتظر ہے۔‘‘
وہ بڑی بے تابی دکھاتے ہوئے ا ندرچلے گئے یاور بولا۔
’’شبو !رحیم مانجھی سچ بول رہا ہے واقعی یہ ہاوس بوٹ خوبصورت ہے ہمیں کہیں اور گھومنے کی ضرورت نہیں ہے یاور ؔنے اس کوکس کر اپنی باہوں میں لے لیاپھر دیواروں پر ٹنگی تصویروں کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
’’شبو ؔ! تم ہر دکھ سکھ میں میرے ساتھ رہنا۔ وقت کا نمرود کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہو۔بالآخر ہار جائے گا۔‘‘
’’یاورؔ حوصلہ رکھو۔ظلم مٹ جائے گااور سچائی جیت جائے گی۔‘‘
اسی اثنا میں رحیم مانجھی نے دستک دی۔
’’صاحب !چائے لایاہوں۔‘‘چائے پیتے ہی شبنم بولی۔
’’یاور ہمیں چلنا چاہئے۔‘‘
’’کچھ دیر کے لئے ٹھہر جائو۔شبو!یہ لمحے بہت قیمتی ہیںہم لمحوں کی ڈور میں بند ھے ہوئے ہیںنہ جانے کب یہ ڈور ڈھیلی پڑے یا کٹ جائے۔‘‘
یہ سن کر شبنم نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’تم جیت جائو گے اور لمحوں کی ڈوربھی رنگ پکڑے گی۔ہماری زندگی میں اک نئی صبح ہوگی جہاںگھومنے پھرنے پر کوئی قدغن نہ ہوگی۔‘‘
’’شبنم !وقت کانمرود جان کے پیچھے پڑگیا ہے کیا پتہ کہاں الائو جلا کے رکھا ہوگا مگر شبو ! امید کا دامن کبھی نہ چھوڑنا چاہئے۔جیت سچائی کی ہوتی ہے ۔‘‘
دونوں نے بڑی مشکل سے گھر والوں کوشادی کے لئے آمادہ کیا تھا کچھ د ن بعدبارات آنے کا انتظار ہورہا تھا۔شام کا وقت تھا ارد گرد وقت کے نمرود کے وفادار چوکنابیٹھے تھے وہ یاور کو پکڑ کرنمرود کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ انعام پالیتے ۔
عورتیں گا رہی تھیں بچے ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتے بھاگتے نظر آ رہے تھے آنگن میں چہل پہل تھی ایک طرف لزیز لزیز پکوان پک رہے تھے کہ بارات آنگن میں داخل ہوگئی ۔سب نظریں دولھے کو ڈھونڈ رہی تھیںمگر۔۔۔۔ بارات کا شاہ کہیں نظر نہ آیا ۔لوگ کھسر پھسر کرنے لگے ۔
’’صرف عمامہ‘‘
ایک آدمی دستار پکڑے ہوئے اندر داخل ہوا۔لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔خیر دلہن سسرال چلی گئی۔
سب انتظار کررہے تھے گھر کو سجا لیا گیا تھاچاروں طرف روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔شادی کے گیت گائے جارہے تھے گھر میں بڑی رونق تھی
اس بیچ یاور کہیں سے آکر بیڈ روم میں داخل ہوگیا عورتیں ایک دوسرے سے کہتی رہیں۔
’’ چلو۔۔۔۔چلو ! دولھے راجا آگئے اور گانے بجانے کی محفل برخاست ہوئی۔یاور اپنی دلہن کے پاس جا کر بیٹھ گیا اسے باتیں کرنے لگا۔اس کی زلفوں سے کھیلنے لگا پھر اس نے شبنم کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا اور وہ ایک دوسرے میں کھو گئے کچھ ہی لمحوں بعد گولیاں چلیں وقت کے نمرود کے سپاہی چاروں طرف بندوق تانے کھڑے تھے یاور ہڑ بڑا کر بولا ۔
’’شبو! لمحوں کی ڈور کچی نکلی۔‘‘
یاور سینہ تانے باہر آکر چلایا۔‘‘
’’بزدلو!چلائو گولی۔‘‘
آواز آئی ۔’’بیعت کرو ۔چھوڑدئیے جائوگے ‘‘
اس نے انکار کیا۔ گولیاں چلیں سانسیں ٹوٹ گئیں لمحوں کی ڈور کٹ گئی ۔۔شبنم جوان بیوہ ہوگئی ۔صدمے سے نکلنے کے بعد وہ میکے چلی گئی تو اس کے کوچے میں پھر عاشقوں کی بھیڑ لگ گئی ۔پھبتیاں اُ ڑنے لگیں
’’شبو! ایک نظر ۔۔۔۔بس ایک نظر ۔ادھر بھی ‘‘
مگر اس کا ہاتھ تھامنے کے لئے کوئی آگے نہیں آیا ۔
٭٭٭
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر:-9906484847