سرینگر //سرینگر کے لل دید اسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ لاپرواہی سے حاملہ خاتون کی اچانک موت پر لواحقین نے اسپتال احاطے میں زبرددست احتجاج کیا ۔ احتجاجی مظاہرے میں شامل لواحقین نے بتایا کہ اسپتال میں تین دن تک زیر علاج رہنے کے بائوجود بھی ڈاکٹروں نے مریضہ کے علاج و معالجہ میں کوئی دلچسپی نہیں لی جسکی وجہ سے اسکی موت واقع ہوئی ہے۔اسپتال کے لیبر روم میں سنیچر کی صبح اسوقت کہرام مچ گیا جب وہاں رخسانہ زوجہ شبیر احمد ساکنہ راولپورہ کی موت واقعہ ہوئی جسکے بعد مریضہ کے رشتہ داروں نے اسپتال انتظامیہ کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔رخسانہ کے والد محمد اکبر نے بتایا کہ رخسانہ کو 8فروری 2018کو اسپتال میں داخل کیا گیا کیونکہ مریضہ کو درد کی شکایت تھی۔‘‘ محمد اکبر نے کہا کہ تین دن اسپتال میں رہنے کے بائوجود بھی ڈاکٹروں نے مریضہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال میں مریضہ کے بارے میں سینئر ڈاکٹروں کوجانکاری دینے کے بائوجود بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی جسکی وجہ سے مریضہ کی موت واقع ہوئی۔ لل دید اسپتال کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر شبیر صدیقی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ مذکورہ خاتون کو false labour pains ، خون کی کمی کی شکایت تھی جس کیلئے مریضہ کو علاج و معالجہ فراہم کیا گیا۔ ڈاکٹر شبیر صدیقی نے بتایا کہ حاملہ خاتون میں خون کی کمی زچگی کے دوران معمول کی بات ہوتی ہے جس کیلئے مذکورہ خاتون کو ادویات فراہم کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ خاتون سنیچر کی صبح بیت الخلا ء گئی تھی مگر وہ بیت الخلاء میں ہی گر گئی۔ انہوں نے کہا کہ بیت الخلاء سے مریضہ کو وارڈ میں منتقل کیا گیا جسکے بعد ڈاکٹروں نے اس کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوشش کی مگر ڈاکٹروں کی کوشش ناکام رہی اور مریضہ نے دم توڑ دیا۔ ڈاکٹر شبیر صدیقی نے بتایا کہ زچگی کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریضہ خون جم جانے کی وجہ سے فوت ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ سال 2017میں بھی لل دید اسپتال میں 4خواتین کی موت واقع ہوئی تھی اور پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر نے مذکورہ واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا مگر ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بائوجود بھی 3کیسوں کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئی اور جس کیس کی تحقیقات مکمل ہوئی اور لل دید اسپتال میں تعینات عملے کو بمنہ کی شاہینہ نامی مریضہ کی لاپرواہی سے موت کی تصدیق ہوئی تھی، پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج نے رپورٹ کو ماننے سے انکار کرکے دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا تاہم تحقیقات ابتک مکمل نہیں ہوئی ۔