محمد اسماعیل وانی
ہر قوم اپنی شناخت کو اپنے کسی شاعر یا فنکار سے متعلق کر دیتا ہے۔ جیسے انگریز اپنی حیثیت کو شیکسپیئر سے جو ڑتا ہے تو جرمن گوئٹے سے اپنی شناخت بناتا ہے ۔ بنگالی ٹیگورکو، ایرانی سعدی اور حافظ کو ، ہندو کالی داس کو ، پنجابی وارث شاہ کو اپنی شناخت کا وسیلہ گردانتا ہے۔ جب کہ کشمیری نے اپنی شناخت اور حیثیت لل دید اور شیخ العالم سےبنالی ہے۔ لل دید نے عرفان میں وہ مقام پا لیا تھا جہاں وجدان اور تجربہ ایک ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے لل دید کو کشمیری مسلمان لل عارفہ سے یا کرتے ہیں، لل معارفہ کے کلام کو سن کر ہر ایک مسرور ہوتا ہے۔لل دید ایک صوفی شاعرہ تھی،لل کے کلام کو واکھ نام سے جانا جاتا ہے، واکھ رباعی کے مانند چار مصروں پر مشتمل ہوتا ہے۔کئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی انکے واکھ آج تک زبان ِزد ہے،یہاں تک کہ بہت ساری زبانوں میں ان واکھوں کا ترجمہ کیاگیا ہے۔سر رچرڈ ٹمیل نے ان واکھوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ،اپنی اس کتاب (دی وارڈ آپ لل)اس بارے میں وہ یوں رقم طراز ہے،یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ان واکھوں نے کشمیری گھرانوں میں روز مرہ بول چال کی شکل اختیار کی۔ سر ابراہیم جارج گریسن اپنی تحقیقی کتاب ( لل واکیانی) میں لکھتےہیں کہ دنیا میں شاید ہی ایسا کوئی ملک ہوگا، جہاں سنتوں کے واکھ اور کہاوتیں اس قدر مقبول اور زبان زد عام ہوگی۔جتنے کہ لل ایشوری کے واکھ ملک کشمیر میں مقبول ہیں۔
اٹھارویں صدی کے وسط سے فارسی زبان میں تاریخی واقعات اور تذکرہ نگاروں نے لل دید کے بارے میں لکھا ہے۔ مثلاًمجموعہ تاریخ ( بیربل کاچرو) واقعات کشمیر( خواجہ اعظم دیدہ مری)تاریخ کشمیر منظوم( شائق) تاریخ حسن ( پیر غلام حسن کھویہامی)اسرار الابرار ( بابا داوؤد مشکواتی) نور نامہ( بابا کمال الدین) اور مختلف نور ناموں کے تذکرات سے صاف ظاہر ہے کہ کشمیر میں لل دید نام ایک مشہور و معروف عابدہ( یوگی) گزری ہے۔اگر چہ ان مسودہ جات میں لل دید کا تذکرہ ملتا ہے مگر جو بھی ملتا ہے وہ لل دید کو سمجھنے کے لئے بہت ہی کم ہے۔لل دید سے متعلق بہت سارے واقعات لوگوں میں معروف ہے۔انکی ساس کے کئے گئے مظالم،کھانے میں نل وٹھ ( ایک پتھر) رکھنا ، اسکے شوہر اسکے سر پر پانی کے مٹکے کا توڑنا،اور پانی کا سر پر معلق ہونا ، وغیرہ شامل ہے، جنکا تذکرہ اکثر مورخوں نے کیا ہے۔ان واقعات کا اور اس ظلم کا اثر انکے کلام ( واکھوں) میں ملتا ہے۔
لل دید ہی کشمیر کی وہ پہلی شاعرہ ہے جس نے کشمیری زبان میں واکھ موزون کرکے کشمیری ادب اور کشمیری شاعری کی سنگ بنیاد ڈالی کشمیری زبان میں فن شاعری کو جنم دیااور اس شاعری میں وہ مٹھاس اور دلاویزی بھر دی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود لل دید کی شاعری تا ہنوز ہر دلعزیز اور دل پزیر بھی ہے۔کشمیر میں خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان، خواندہ یا نا خواندہ،مرد ہو یا عورت ہر کوئی ان واکھوں کو سن کر مسرور ہوتا ہے۔ لل عارفہ شاعری میں سادہ زبان استعمال کرتی تھی،لل ایک پیدائشی شاعرہ تھی جسکو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔لل دید کے زمانے میں سانسکرت زبان کا اثر زیادہ تھا، اسی لئے لل کے کلام میں سنسکرت زبان کے الفاظ کا استعمال زیادہ ملتا ہے مگر لل نے سنسکرت اور کشمیری زبان کو ایسے ملایا ہے کہ پڑھنے والے کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس میں سنسکرت الفاظ بھی استعمال ہوئےہیں۔
زیادہ تر شعراء اپنے کلام میں محبوب اور عشق مجازی کو جگہ دیتے ہے مگر لل نے اپنے کلام کو عشق مجازی سے پاک رکھا اور ہمیشہ اپنے کلام میں دیہاتی روح پرور اور پر سکون ماحول کی چھاپ عیاں رکھا۔ شہر کی گہما گہمی نظر نہیں آتی ، دیہاتی ماحول سے استعارات اور تشبیہات اس طرح چن چن کر واکھوں میں موزوں کئے ہیں جو سننے والوں کے آنکھوں کے سامنے ایک منظر پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً آمہِ پَنہ سدرس ، ناؤ تار، قلفہ روس وان، پہلہِ روس کھؤل، گیانہِ مرگ، ہاکئہ وآر، کونگہ وآر، سور پیوانی، کپسہ پوش، وغیرہ
لل دید کے کلام میں اختصار ، مکمل چستی وبندش، خیالات کہ گہرایی، استعارات،تشبیہات کا مناسب اور بر محل استعمال ، واکھ کا ہر مصرع اپنے طور مکمل اور با معنی واکھ کے چاروں مصرعے ملا کر پڑھنے والے کے لئے پیغام بن جاتا ہے،لل کے کلام میں صداقت ، فکری جدت، مضمون آفرینی اور عوام کے دلوں میں قربت حاصل ہے۔ریاضت ، عبادت اور قوت ایمان،لل دید کے واکھوں میں صاف ظاہر ہے۔لل کی شاعری درد مند دلوں کے لئے مرہم، تشنہ لبوں کے لئے آب حیات اور حق کو تلاش کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے۔لل دید نے اپنا پیغام لوگوں کو انہی کی زبان میں سنایا۔
لل دید کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز زوال پزیر ہے کیونکہ وہ ااپنے مرکز سے دور ہے۔ہر چیز اپنے منبع کی طرف رواں دواں ہے( کل شیء یرجع الی اصلہ)جس طرح ایک پہاڑی نالہ دریا کے ساتھ مل جانے کے لئے روان دوان ہے۔مثلاً
آمہ پنہ سدرس ناو چھس لمان
کتہ بوزِ دیہ میون متہ دیہ تار
آمن ٹاکین پونی زن شمان
دل چھم برمان گر گژھا
یعنی میں اس سمندر ( دنیا) میں اپنی کشتی ( جسم ) کو سانسوں کے کچے دھاگے سے کھینچی جا رہی ہوں ، کاش ( میری کمزوری) مد نظر رکھ کر میرا مولیٰ( خدا) میرا بیڑا پار لگا دے، قبل اسکے کہ میرا یہ جسم ( جو ایک مٹی کے کچے برتن کی طرح پانی جزب کر رہا ہے) مٹی کے ٹاکوں کی طرح ختم ہو جائے۔میری یہ دلی خواہش ہے کہ میں اپنے اصلی گھر پہنچ جاؤں، اور اپنے حق کے ساتھ وصل ہوجاؤں ۔
مختلف تواریخ اور نور ناموں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لل دید نے آخری عمر میں دنیا ، گھر بار کو ہی ترک کیا تھا ، لل دید نے دنیا کی شہرت ، منزلت،مال و منال سب کو دل سے نکال لیا تھا اور آخرت کی فکر میں مگھن تھی جسکا تذکرہ اسکے اس واکھ میں بھی ملتا ہے۔
آیس وَتے گیس نا وتے
سمن سوتھ منز لوسم دوہ
چندس وچھم تہ ہار نا اتھے
ناو تارس دمہِ کیاہ بو
مجھے بیچ راستے میں سورج غروب ہو گیااور رات کی تاریکی چھا گئی ( آخری آن پہنچا)آسان راستہ یہ تھا کہ میں ناؤ کے ذریعہ دریا سے پار اتر جاتی اور اس طرح لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی ) مگردریا سے پار لے جانے والے ملاح کے لئے تو اجرت کی ضرورت تھی میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ ( سفر آخرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مجھےآخرت کے سفر کو طے کرنے لئے لئے زاد راہ ہی نہیں ہے۔اور ایک واکھ میں دنیا کی بے ثباتی کی طرف اشارہ کرکے فرماتی ہے۔
لراہ لزم منز مآدانس
اندی اندی کری مس تکیہ تہ گاہ
سہ روز ییتی تہ بہ گژھ پانس
وآنی گوؤ وانس پھالو دتھ
میں نے ایک مکان بیچ میدان میں تعمیر کیا ، باہر سے پھر تکیہ لگا کر باغ سجایا ، لیکن باوجود اسکے کہ میں اعلان کرتی ہوں کہ یہ سب کچھ یہی رہ جائے گااور میں لل ہی چلی جاؤں گی۔ ٹھیک اسی طرح کہ جس طرح مختلف چیزیں فروخت کرنے والا دکاندار دن بھر کام کرنے کے بعد شام کو اپنی یہ دکان بند کرکے واپس اپنے ٹھکانے پر چلا جاتا ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد انسان اس دنیا کو سجاتا ہے مگر پھر اچانک اس کو یہ سب چھوڑ کر یہاں سے جانا پڑتا ہے۔
انسان کی زندگی میں مشکلات آتے رہتے ہے۔ مشکلات کے آنے سے ہی انسان میں مضبوتی آجاتی ہے۔لل دید اس کے بارے میں اس واکھ میں فرماتی ہے۔
ژالن چھ وزملہِ تہ تَرٹے
ژالن چھ مَندنین گٹہ کار
ژالن چھ پان پانن کڑن گرٹے
ہتہ مالہ سنتوش واتی پانے
لل دید کی زندگی کو مطالعہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ اس نے سسرال میں کن مشکلات کا سامنا کیا اور خوشی خوشی ان مشکلات کا سامنا کرتی رہی اور آخر کار ان سے آزادی بھی پائی۔ اسی کی طرف انسان کو اشارہ دے کر سمجھانا چاہتی ہے کہ اے انسان تجھے گرجتی ہوئی بجلی برداشت کرنی ہے اپنوں کے کھو جانے کا غم ، اپنے آپ کو مضبوط چکی میں پیسنا ہوگا ، تب جاکے تمہیں خود بخود سکون آجائے گا۔
لل دید مذہب کی ظاہر داری کے علاوہ مورتی پوچا کی بھی قائل نہیں تھی اور وحدانیت کا پرچار کرتی تھی۔وہ اپنے خدا کو ‘شوِ کے نام سے پکارتی تھی۔ وہ جسم کی پاکی سے زیادہ باطن کی پاکی پر زور دیتی تھی۔ لل دید کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز زوال پزیر ہےکیونکہ وہ اپنے مرکز سے دور ہے۔
(مضمو ن گار ریسرچ اسکالر کشمیر یونیورسٹی ہیں)