اپنے ہل والے قائد ثانی آج کل دبنگ سیاستدان بنے پھر رہے ہیں اسی لئے کرسی کی امنگ لئے ترنگ میں آ کر اپنا سیاسی جل ترنگ بجاتے ہیں۔ایک ہفتے اس نے دلی دربار سے لے لر ناگپوری سنگھ پریوار کو چیتائونی کے لپیٹے میںلایا اور دھمکی دے ڈالی کہ نیشنل فوج تیار ہے، بر سر پیکار ہے بلکہ گپکار کی سڑکوں پر بازو لہرا لہرا کر برسوں کا حساب دو آٹو نامی کا جواب دو کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں اور اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھنے والے جب تک اندرونی خود مختاری کا پارسل ان کے حوالے نہ کیا جائے ۔پارسل بھی وہ اسپیڈ پوسٹ سے وصول نہیں کریں گے بلکہ کسی خصوصی جہاز میں سجا سنورا کر نئی نویلی دلہن کی طرح زرق برق لباس میں ملبوس کر کے ان تک پہنچایا جائے۔دوسرے ہفتے وہ نیشنل سے انٹرنیشنل چلے گئے اور ملک کشمیر کا بٹوارا کر ڈالا کہ خاقان عباسی میاں تم مظفر آباد رکھ لو اور مودی مہاراج سرینگر جموں رکھ لیں گے بلکہ اقوام عالم کے تحصیل داروں کو اطلاع دے ڈالی کہ وہ فوراً ملک کشمیر کے آر پار کاغذات جمع بندی مع کھیوٹ و شجرہ تیار رکھ لیں تاکہ اس کے مالکانہ حقوق پر مہر ثبت کی جائے ۔ہم تو بشمول اپنے مدیر عام خام بندے ہیں سوچنے لگے کہ ادھر عباسی اور ادھر مودی کو کشمیر ملے گا، بھلا ہم جو کشمیری ہیں ہمیں کیا دیں گے؟؟؟ہم جو برس ہا برس سے اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے تو ہمیں کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟؟؟ہم جو’’ ظالمو! جواب دو خون کا حساب دو‘‘ کا برسوں سے ورد کرتے رہے ہیں ہمیں بھلا کس فہرست میں شامل کیا گیا ہے؟؟؟گولیاں ہم نے کھائیں ، پیلٹ ہم نے سہے ، قید و بند میں ہم رہے پھر غریب کشمیری کا حال کون پوچھے کہ تمہیں کیا کرنا ہے ؟؟؟ہم نے سوال قائد ثانی سے براہ راست کر ہی ڈالا کہ عالی جناب !میرا کشمیر کون سا ہوگا ؟جواب فوراً ملا کہ تم تو پشتینی باشندے ہو ،اسی خیال میں خوش رہو ، گم رہو، صم رہو، البتہ کشمیر کا میرا حصہ اہم ہے اور مسند اقتدار کی کرسی کے نیچے جو زمین گھیری جائے گی وہ میری ہوگی اور اسی کے گرد ہل والا جھنڈا ہاتھ میں لے کر نیشنل سازندرے لیَ چھیڑیں گے، نینشنلی رقاص اور رقاصائیں ( یی ببس خوش کر تی کر لولو ) گیت گائیں گے بلکہ( اَلہ کرے گا وانگن کرے گا بب کرے گا بب کرے گا) پر بھی تھرک تھرک ناچیں گے اور ایسے میں جو کنول کی پتیوں کو چومنے والوں نے قائد ثانی کی سر زنش ہی نہ کی بلکہ عدالتی کاروائی کا بھی بیڑہ اٹھایا تو وہ بھڑک اٹھا ۔ببانگ دہل کہہ ڈالا کہ جب مظفر آباد تمہارا ہے تو اسے واپس جیت کر دکھائو ۔کبھی جو کہا تھا اس پر نیوکلیائی بم برسائو ،وہی آج محسوس ہوا کہ وہاں چوڑیا ں پہنے نہیں بیٹھے ہیں کہ تم لوگ گئے اور وہاں چھن چھنا چھن ہوگی ۔ نہ جانے یہ کیسے قائد ثانی کو معلوم ہے وہاں بھی دھن دھنا دھن ہوگا؟؟؟بم بارود پھٹے گا ،لاشیں گریں گی، چیتھڑے اُڑیں گے، خون اور آگ کی ہولی کھیلی جائے گی۔کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا بلکہ سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ویسے قائد ثانی کا جی ابھی بھرا نہیں کہ فوراً تیسری دھمکی دے ڈالی کہ دلی دربار کی طرف سے لاگو مرکزی قوانین کو فوراً واپس لیا جائے یعنی وہ جو گھڑیال گھمانے کی کبھی بات ہوئی تھی، اس پر عمل کرو نہیں تو نیشنلی ڈیجٹل گھڑیال متعارف کردیں گے ، پھر دیکھنا ؎
فلک پر جتنے مَلک ہیں وہ اپنے چینل پر
شبانہ روز تماشہ بشر کے دیکھتے ہیں
ایسے میں سیاسی ایکٹر کا ساتھ دینے فلمی ایکٹر رشی کپوربھی میدان کشمیر میں کود پڑا ۔ اعلان کردیا کہ موت سے پہلے پاکستان دیکھنا چاہتا ہوںاورڈفلی والے ڈفلی بجا میرے گھنگھرو بلاتے ہیں میں ناچوں تو نچا پر ٹویٹ کی، چڑیا کو پھر سے اڑا دیا۔ٹویٹ کی چڑیا پنکھ پھیلائے دور دور دیشوں تک پہنچی اور اس کا پیغام پہنچا گئی۔ کسے نہیں معلوم کہ قائد ثانی جب ناچتے ہیں تو بڑے بڑے ایکٹرس کو مات دیتے ہیں اور جب اہل کشمیر کو نچاتے ہیں تو اُن کی سر تال کو بدل دیتے ہیں بلکہ کرسی کے عوض ایسے بیچ بھی دیتے ہیں کہ بے چاروں کے پاس کیش میمو بھی نہیں رہتا !!!اگر کچھ بچ بھی جاتا ہے وہ بقول کسے گبر سنگھ ٹیکس میں چلا جاتا ہے۔جی ایس ٹی کی بات چلی تو اس کی والدہ مرحومہ ماجدہ یعنی نوٹ بندی یاد آئی جس کے بطن سے اس کا جنم ہوا۔ سال بھر پہلے نوٹ بندی کا اعلان ہوا تو مودی مہاراج کے چیلے خوشی سے پھولے نہ سمائے۔کچھ اس وجہ سے کہ مودی سرکار نے کمال(یشونت سہنا کی ڈفلی کہتی ہے : زوال کہئے زوال کہئے ،اسے ملک ہوا ہے کنگال کہئے ) کا قدم اٹھایا کچھ اس لئے کہ ان کا کالا دھن رنگ بدل کر اصلی چٹا سفید بن جائے گا ۔ویسے سیاست دان تو چشم زدن میں رنگ وآہنگ بدلتے ہیں لیکن ان کا پیسہ جب رنگ بدلے تو گرگٹ کی ایسی کی تیسی مگر جو کچھ ہمیں معلوم نہ تھا وہ منسٹر صاحب روی شنکر پرساد کہہ بیٹھے کہ نوٹ بندی سے عصمت فروشی میں کمی آئی۔ واہ واہ !اب اس بات کی خبر کون رکھتا ہے ہم سوچنے لگے ۔پھر جو بھاجپا کے دو لیڈر راجستھان کے ریگستانی علاقے میں سیکس ٹیپ پر چھا گئے تو پتہ چلا کہ اندر کی خبر بھاجپا والے ہی رکھتے ہیں۔البتہ اہم بات یہ ہے کہ ڈیجٹل انڈیا کی نعرے بازی میں اگر عصمت فروش خواتین بھی ڈیجیٹل ہو گئیں تو روی پرساد عصمت فروشی روکیں گے یا ڈیجٹل لین دین؟؟؟ دیش کے ایک سو پچیس کروڑ دیش و اسی وجواب دیں ۔ خیرنوٹ بندی کے ایک سال کے شور شرابے میںمنسٹر صاحب بھول ہی گئے کہ نوٹ بندی سے قبض کی تکلیف بھی دور ہو گئی۔جب غریب کارخانہ دار اور مزدور کچھ کما نہ پائے، کچھ کھا نہ پائے تو قبض ی کی شکایت کس چیز سے ہو ؟؟؟یعنی منسٹر صاحب منہ سے سیاسی بارود تو چھوڑ سکتے ہیں غریب عوام پیچھے سے کیا دھماکے کر پائیں گے؟؟؟
آٹونامی کے شور شرابے میں اور نوٹ بندی کی برسی کے غل غپاڑے میں جو دینشور بابو جا سوسانہ انداز میں چپکے سے آئے اور خاموشی سے چلے گئے کہ جہلم اور ڈل کے پانیوں پر کوئی ارتعاش پیدا نہ ہوا ۔ملنے جلنے کوئی خاص وعام آیا نہیں ، دروازے پر وہی لوگ انتظار کئے جو ٹی وی اسکرین پر آنے کے لئے پانی میں چھلانگ مار سکتے ہیں ۔خود شرما جی سابق وزیر اعلیٰ سے ملنے پہنچے۔دروغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ نیشنلی ٹویٹر ٹائیگر نے صرف اتنا کہا :دنیش بابو دو چٹکی آٹونامی کی قیمت تم کیا جانو!اس سے تو ہم اہل کشمیر کے سامنے ہلکا سا منہ اٹھائے چلنے کے قابل ہوتے ہیں۔بس دو چٹکی دنیش بابو۔
یہ اہل کشمیر ہیں ہی ایسے کہ خود مرتے ہیں، خود تڑپتے ہیں، خود ہی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں اور بقول بانوئے کشمیر ہم کشمیری اپنے آپ کو خود ہی تکلیف دیتے ہیں۔کیا کہا یقین نہیں آیا تو لو جی ہم فہرست آ پ کے سامنے رکھتے ہیں ، پڑھیے اور اندازہ لگائے بلکہ سنیے اور سر دھنیے۔تیرہ سالہ انشا ء لون تو گھر میں بیٹھی تھی کہ کھڑکی سے خود ہی جھانک کر پیلٹ کی بوچھاڑ کے سامنے اپنا خوبصورت منہ ڈال دیا ،بھلا اس میں وردی والے کا کیا قصور؟؟؟کھریو شار کا اُستاد شبیر منگو تو رامبو اسٹائل میں وردی پوش اہلکاروں سے اُلجھ گیا پھر حفظ ما تقدم کے طور جب وردی والوں نے مارا پیٹا اور جان ہی لے لی تو اس میں ان پر کیسا دوش؟؟؟کولگام کے پہاڑی علاقے میں جو دہقان نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا تو اس کا بدلہ وردی والوں نے بائی پاس پل کے پاس ترکھان سے لیا، بھلا اس میں قصور تو کشمیری کا ہی ہے نا ؟؟؟طفیل متو کیا، اے ٹی ایم گاڑد کیا، بیجبہاڑہ کا اسکالر کیا، غرض کتنے کشمیریوں کا نام لیں ،اپنے آپ کو ہی تکلیف دیتے ہیں اور پھر الزام دوسروں پر لادنے کے عادی ہیں!!!
خون صرف مچھر نہیں چوستے مقصود
یہ خوبی تو سیاست دانوں میں بھی ہوتی ہے
اتنا ہی نہیں ایک تو خود کو تکلیف دیتے ہیں پھر اس کا معاوضہ بھی مانگتے ہیں۔واہ کیا بات ہے!اپنے ہی گھروں کی توڑ پھوڑ کرواتے ہیں۔کانچ لگی کھڑکیاں اس وقت کھڑکتی ہیں جب کھڑک سنگھ بندوق کے بٹ، لاٹھیاں پتھر کا استعمال کرتا ہے ۔ دروازے ٹوٹتے ہیں ، ٹی وی فرج ٹوٹتے وقت جوابدہی بھی کرنا پڑتی ہے کہ اتنی پراپرٹی ہونے کے باوجود آزادی مانگتے ہو۔بھلا کون سنے جب بانوئے کشمیر کی پوری ٹیم گرما گرم دھوپ سینکنے جامبو لوچن کے دیش چلی جاتی ہے ؎
غالب ہوا ہے عشق پہ رنگ حکومت
معشوق میں وہ جذبہء ایثار نہ رہا
مشکل میں ہاتھ چھوڑ دے خوشیوں میں ساتھ دے
گویا کہ پیار نہ ہوا دربار مو ہوا
ادھر پانی کے لئے ہاہا کار، راشن کی دوکانوں پر لمبی قطار، بجلی آئے نہیں بلکہ جائے بار بار یعنی شکایتیں ہیں بے شمار اور روز روز چھاپے ہے اخبار۔اچھی خاصی فیس ادا کرنے کے بعد بھی بجلی کا رونا روتے ہیں۔سرد آہیں لے کر بلاتے ہیں، پکارتے ہیں۔
ہیٹر کی رکی نبض چلانے کے لئے آ
کمرے میں بجھی بلب جلانے کے لئے آ
ٹھنڈا ہوا ہے بسترہ ٹھنڈی ہے سانس بھی
ڈوبی ہے دل کی دھڑکن اٹھانے کے لئے آ
ہم تو بچپن سے فلمیں دیکھتے آئے ہیں اور پچپن میں بھی ان کا مزہ لیتے ہیں۔بچپن سے لے کر پچپن تک کبھی بھی فلم میں پولیس والوں کو وقت پر آتے نہیں دیکھا بلکہ فلم کے خاتمے کے قریب جب ہیرو درجن بھر لوگوں کو پچھاڑ دے تو پولیس والے حاضری دیتے ہیں۔کچھ ایسا ہی اپنے ملک کشمیر میں ہوگیا۔قریب دو مہینے ہم آپ سب لوگ چوٹی کٹائو مہم کا شکار ہوئے۔ راہ چلتے بھکاری پر شک کیا، گھر آئے مہمان کو کنکھیوں سے دیکھا کہیں قینچی تو نہیں نکال رہا، ڈاکیے اور ڈیلوری بوائے کی خوب تلاشی لی، مالی کی قینچی کو ہتھیار سمجھ لیا ، لیکن اپنے پولیس والے بھائی صاحب نظر نہ آئے۔اب جو فلم قریب قریب ختم ہی سمجھو کہ وردی والے اپنا چہرہ دکھا گئے۔اخباری کانفرنس میں گاندربل میں دعویٰ کیا کہ چوٹی کٹائو مہم کا راز فاش ہو گیا۔جانے اہل کشمیر فلمی کہانیوں پر کیوں بھروسہ نہیں کرتے ، ویسے کریں بھی کیوں یہ تو فکشن ہوتا ہے فرضی سین میں فرضی کردار !!!
اب اس کے خال سے چلتے ہیں گیسووں کی طرف
سمٹ کے دیکھ لیا ہے بکھر کے دیکھتے ہیں
وہ جو فلمی ہیرو نے کہا تھا مجھے تو سب پولیس والوں کی صورتیں ایک جیسی دکھتی ہیں ،اب کی بار تو ہم پر بھی فلمی اثر ہونے لگا۔ہوگا کیوں نہیں نوئیڈا میں کم سن طالب علم کے قتل کے شک میں کنڈکٹر کو گرفتار کیا گیا اور تب تک مار پیٹ جاری رہی جب تک اس نے ناکردہ گناہ قبول نہ کیا۔اتنا ہی نہیں جے این یو کے طالب علم نجیب کی گمشدگی کیس میں سی بی آئی نے دلی پولیس پر الزام لگایا کہ وہ بر سر اقتدار پارٹی سے وابستہ لڑکوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے، آٹو ڈرائیور کو غلط بیانی پر مجبور کیا گیا کہ اس نے نجیب کو دانش گاہ کے قریب اُتارا تھا۔ہم تو حیران ہیں کہ پولیس والے ہر جگہ فکشن تحریر کر رہے ہیں !!
رابط [email protected]/9419009169
�����