معراج زرگر
انٹرنیٹ پر دستیاب بے شمار اسکینڈل ایسے ہیں جہاں مضر، حرام، ناپاک، گلا سڑا گوشت اور دیگر اشیائے خوردنی کا کاروبار کیا گیا اور بعد میں ان کو باضابطہ ریگولیشنزکے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔ امریکہ، چین، برازیل اور یورپ کے کئی شہروں میں سڑے گلے اور مضر گوشت کی سپلائی، ری پیکنگ اور غلط لیبلنگ کے بڑے اسکینڈل مافیا کے ذریعے سے چلتے رہے اور بعد میں ایکسپوزکئے گئے۔ مضر گوشت کی عالمی اسمگلنگ ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے چلتی ہے۔ افریقی ممالک سے جمع کیا گیا مردہ یا بیمار جانوروں کا گوشت منجمد حالت میں مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کے کچھ حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ اسی طرح یورپ میں ’’ڈمپنگ فوڈ‘‘ پالیسی کے تحت بڑی کمپنیوں کی زائد المیعاد اشیا غریب ممالک کو سستے داموں بیچ دی جاتی ہیں۔ یہ تمام اشیا مقامی ہوٹلوں اور ریستورانوں میں ’’امپورٹڈ‘‘ یا ’’اعلیٰ معیار‘‘ کے نام سے فروخت ہوتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ انسانی صحت کے لیے ایک ٹائم بم ہوتی ہیں۔چین میں شنگھائی ہو سی فوڈ اسکینڈل ایک قومی ٹیلیویژن رپورٹ نے انکشاف کیا کہ اس کمپنی نے زائد المعیاد گوشت اور سڑا گلا گوشت استعمال کرکے مشہور بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چینز جیسے میکڈونلڈز، کے ایف سی، پیزا ہٹ اور اسٹار بکس کو سپلائی کیا۔ اس نے خوراک کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے، اور چین بھر میں ایک بڑا ردِ عمل ہونے پر مجبور ہوا۔ اسی طرح یورپ میں ہارس میٹ اسکینڈل میں برگرز اور لازانیا میں گھوڑوں اور سوروں کا گوشت بغیر اطلاع یا غلط لیبلنگ کے استعمال کیا گیا۔ جس کی وجہ سے یورپی گوشت صارفین میں خوراک کے حوالے سے اعتماد کو شدید جھٹکا پہنچایا۔
سویڈن میں بھی آئی سی اے ری پیکیجنگ اسکینڈل میں سپر مارکیٹ چین میں گلے سڑے گوشت کو دوبارہ پیک کیا گیا اور اس کی تاریخ بدل کر فروخت کیا گیا۔ برازیل میں آپریشن ویک فلیش یا ویک میٹ اسکینڈل میں وہاں کے بڑے گوشت برآمد کنندگان جیسے جے بی ایس اور بی آر ایف نےخراب اور بوسیدہ گوشت کو کیمیکل ٹریٹمنٹ اور رشوت کے ذریعے ٹھیک ٹھاک بنا کر جعلی سرٹیفیکیٹ کے ساتھ ملک گیر اور بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیا۔ یہ اسکینڈل ایک وسیع مجرمانہ تنظیم کے بنیادی ڈھانچے کو بے نقاب کرتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں لِسٹریا آؤٹ بریک ورجینیا میں بورز ہیڈ پروویژن کمپنی کے تیار کردہ خراب اور ناقص گوشت کی وجہ سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے اور قریباً دس لوگوں کی موت بھی ہوئی۔
دنیا کی ترقی، صنعتوں کا پھیلاؤ اور تجارتی منڈیوں کی وسعت کے ساتھ جہاں معیاری اور محفوظ خوراک کی فراہمی کے نظام بنے، وہیں اس کے متوازی ایک بھیانک، مجرمانہ اور غیر انسانی کاروبار بھی پروان چڑھا جوکہ بوسیدہ، باسی اور مضر صحت اشیائے خوردنی کی تیاری اور فروخت ہے۔ یہ کاروبار آج دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔ بڑے بڑے شہروں کے ہوٹل، ریستوران، شادی ہال، سڑک کنارے ڈھابے، حتیٰ کہ کچھ فائیو اسٹار ادارے بھی اس زنجیر کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کاروبار کا مرکز محض کمائی نہیں بلکہ اندھا لالچ ہے، جو انسانی جان اور صحت کو ایک سستی قیمت پر نیلام کرتا ہے۔
عالمی سطح پر مضر صحت خوراک کا کاروبار ایک کثیر ارب ڈالر کی معیشت بن چکا ہے۔ مغربی دنیا میں فوڈ انسپیکشن کے سخت قوانین کے باوجود بعض بڑے کارپوریٹ ادارے پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے مدتِ استعمال پوری کرچکی یا اس کے قریب پہنچ چکی اشیا ءکو ری پیک کر کے مارکیٹ میں بھیج دیتے ہیں۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں یہ رجحان اس سے بھی خوفناک ہے۔ یہاں کمزور قوانین، کرپٹ نگرانی ادارے اور غربت کا شکار صارفین اس دھندے کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔
ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں مضر صحت خوراک کے کاروبار کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نگرانی کرنے والے ادارے یا تو وسائل سے محروم ہیں یا رشوت اور سیاسی دباؤ کے آگے بے بس۔ بڑے شہروں میں شادی بیاہ کے ہالز، کیٹرنگ سروسز، ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈ مراکز میں سپلائی ہونے والا گوشت، مرغی، مچھلی اور دیگر اشیا اکثر غیر معیاری ہوتی ہیں۔ حلال گوشت کے نام پر حرام یا مضر صحت گوشت فراہم کرنے کا طریقہ کار نہایت مکروہ ہے۔ بیمار یا مردہ جانوروں کا گوشت فریز کر کے یا مصالحوں میں ڈبو کر بدبو ختم کی جاتی ہے، پھر اسے ’’تازہ‘‘ قرار دے کر بیچا جاتا ہے۔ دیہات سے بڑے شہروں تک ایسے مافیا سرگرم ہیں جو قصائیوں، تھوک فروشوں، ٹرانسپورٹروں اور یہاں تک کہ بعض اہلکاروں سے گٹھ جوڑ رکھتے ہیں۔ مرغی فارموں میں بیمار یا اینٹی بایوٹک کی زیادہ مقدار سے پلائے گئے مرغے انتہائی سستے داموں خرید کر بڑے ریستورانوں کو بیچ دیے جاتے ہیں۔
یہ مافیا اس قدر منظم ہے کہ ایک طرف یہ غیر معیاری گوشت مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور دوسری طرف جب کبھی کوئی پکڑ ہوتی ہے تو چند دن بعد پھر سے کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے پاس رشوت، دھمکی، اور قانونی سقم سے فائدہ اٹھانے کے تمام ہتھکنڈے موجود ہیں۔ جموں و کشمیر میں قومی شاپراہ، صحت افزا مقامات اور بڑے شہروں اور قصبوں میں اس قسم کے کاروبار کی اکثر عوامی حلقوں میں شکایات موصول ہوتی رہتے ہیں۔
کشمیر میں حال ہی میں مضر اور خراب گوشت کی ایک بڑی کھیپ پکڑی گئی۔ محکمہ خوراک اور محکمہ لائیو اسٹاک نے مشترکہ کارروائی کے دوران کئی من گوشت تلف کیا جو مبینہ طور پر بیمار اور مردہ جانوروں کا تھا۔ یہ گوشت مختلف ہوٹلوں، شادی ہالز اور ریستورانوں کو فراہم کیا جانا تھا۔ اس واقعے نے مقامی آبادی میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے کیونکہ کشمیر ایک سیاحتی خطہ ہے اور یہاں کے ہوٹل اور ریستوران نہ صرف مقامی بلکہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بھی کھانا فراہم کرتے ہیں۔اس طرح کے واقعات سے دوہرا نقصان ہوتا ہے۔ ایک عوام کی صحت کا اور دوسرا سیاحت کی معیشت کا۔ اگر کسی سیاح کو یہاں مضر صحت کھانا کھانے سے بیماری لاحق ہو جائے، تو اس کی خبر بین الاقوامی میڈیا میں پھیلتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاحتی آمدنی کم ہو جاتی ہے۔
مضر صحت گوشت یا باسی کھانے کا سب سے پہلا اثر معدے اور آنتوں پر ہوتا ہے۔ فوڈ پوائزننگ، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، پیچش، پیٹ کی دائمی بیماریاں اور حتیٰ کہ کینسر تک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مرغی میں ضرورت سے زیادہ اینٹی بایوٹک کے استعمال سے انسانی جسم میں دواؤں کے خلاف مزاحمت (اینٹی بایوٹک ریزسٹنس) پیدا ہوتی ہے، جو ایک عالمی طبی
بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔یہ کاروبار معیشت کے لیے ایک زہرِ قاتل ہے۔ سب سے پہلے تو صارفین کے اعتماد کا نقصان ہوتا ہے، جو مقامی صنعت اور مارکیٹ کی ساکھ کو کمزور کرتا ہے۔ دوسرا نقصان سیاحت، ہوٹل انڈسٹری اور فوڈ ایکسپورٹ پر پڑتا ہے۔ اگر کسی خطے کی ساکھ خراب ہو جائے کہ وہاں مضر صحت کھانا فراہم ہوتا ہے، تو درآمدات و برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور اس شعبے میں روزگار کے مواقع سکڑ جاتے ہیں۔
برصغیر میں ہوٹل و ریستوران انڈسٹری لاکھوں لوگوں کو روزگار دیتی ہے۔ جب مضر صحت خوراک کا اسکینڈل سامنے آتا ہے تو نہ صرف صارف کم ہو جاتے ہیں بلکہ قانونی چارہ جوئی، جرمانے اور کاروبار کی بندش سے سرمایہ کار بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس طرح یہ دھندہ بالآخر قانونی معیشت کو بھی کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ سارا کا سارا کام اکثر مافیا کرتا ہے۔ یہ منظم گروہ بیمار یا مردہ جانوروں کا گوشت جمع کرتے ہیں اور ٹرانسپورٹ، کولڈ اسٹوریج اور ری پیکنگ کے ذریعے بدبو اور بوسیدگی چھپاکر ہوٹلوں، شادی ہالز اور ریستورانوں کو ’’سستا اور فوری سپلائی‘‘ کے نام پر مال بیچتے ہیں۔ یہ نیٹ ورک اکثر مقامی انتظامیہ کے چند بدعنوان اہلکاروں، بااثر تاجروں اور سیاسی سرپرستی میں چلتا ہے۔ جب کبھی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو میڈیا میں خبر چلتی ہے، مگر چند ہفتوں بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ جس طرح دیکھا گیا کہ زکورہ میں سب سے پہلی کھیپ پکڑنے کے باوجود اسے صیغہ راز میں رکھا گیا اور اب بھی مقامی آبادی کو اس سڑے گلے گوشت کی سپلائی چین کی پوری معلومات میسر نہیں ہیں۔
اس کاروبار کی روک تھام کے لئے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ جن میں خوراک کے معیار کی نگرانی کے قوانین سخت کرنا، فوڈ سیفٹی لیبارٹریوں کا جال شہروں سے لیکر چھوٹے قصبوں تک پھیلانا، غیر معیاری خوراک فراہم کرنے والوں پر فوری اور بھاری جرمانے عائد کرنا، صارفین میں آگاہی پیدا کرنا تاکہ وہ کم قیمت یا مشکوک معیار کے کھانے سے گریز کریں وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہوٹل و ریستوران ایسوسی ایشنز اپنے اراکین پر داخلی نگرانی کا نظام قائم کریں تاکہ ایک بہت بڑی انڈسٹری تباہ ہونے سے بچے۔۔
کشمیر کے بڑے بڑے قصبوں میں ذبح خانوں کی عدم موجودگی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے خراب اور غیر معیاری گوشت مارکیٹ کی سپلائی چین میں سرایت کر جاتا ہے اور اکثر گوشت کےصارفین اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ماڈرن طرز کی گوشت تیار کرنے کی فیکٹریاں یا یونٹس بھی موجود نہ ہونے کی وجہ سے باہری ریاستوں سے خراب گوشت مارکیٹ سپلائی چین میں داخل ہوتا ہے۔ یہ زہر کا کاروبار انسانی ضمیر کی شکست کی علامت ہے۔ اگر ہم اسے روکنا چاہتے ہیں تو محض قانون نہیں، بلکہ سماجی دباؤ، صارفین کی بیداری اور دیانتدار کاروباری رویے کو فروغ دینا ہوگا۔ بصورتِ دیگر ہم سب ایک نہ ایک دن اس زہر کا شکار بن سکتے ہیں، چاہے یہ بے ایمانی کا زہر پلیٹ میں ہو یا پھر معیشت میں۔
<[email protected]>
�����������������