گورنر انتظامیہ کی طرف سے لداخ کو ریاست کا تیسرا صوبہ بنایاگیاہے اور اس سلسلے میں تین روز قبل حکمنامہ جاری ہونے کے ساتھ ہی جہاں لداخ خطے کے عوام کو مبارکباد پیش کی جانے لگی وہیں خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب سے شدید رد عمل سامنے آرہاہے اور عوامی و سیاسی حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ ان دونوں خطوں کو کس بنیاد پر نظرانداز کیاگیاہے ۔اس فیصلہ پر ریاست کی مین اسٹریم جماعتیں بھی خاموش نہیں رہیں اور نیشنل کانفرنس و پی ڈی پی دونوں نے گورنر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پیر پنچال اور چناب خطوں کے عوام کی حمایت کا اعلان کیاہے جبکہ کرگل کے لوگوں نے احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔اسی طرح سے دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے تاہم بھارتیہ جنتاپارٹی واحد ایسی جماعت ہے جو خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال کے عوام کے مطالبے کی مخالف ہے ۔بے شک لداخ جغرافیائی لحاظ سے ایک الگ تھلگخطہ ہے اور اس علاقے کے مسائل بھی الگ نوعیت کے ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے وہاں پہلے سے ہی پہاڑی ترقیاتی کونسلوں کا قیام عمل میں لایاگیاہے، جن کو حال ہی میں مزید اختیارات بھی تفویض کئے جاچکے ہیں ۔ اس کے باوجود لداخ کے عوام کیلئے یہ خوش آئند اقدام ہے تاہم جس طرح سے ایئرپورٹ ، یونیورسٹی اور اب صوبائی انتظامی دفتر کے قیام میں کرگل پر لہیہ پر ترجیح دی گئی ہے ،اس سے بھی کئی طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں ۔آبادی کے اعتبار سے کرگل لیہہ کے مقابلے میں بڑا ضلع ہے مگر سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے اسے بالکل بھی فوقیت نہیں ملتی ۔حالیہ فیصلہ سے کرگل اور لیہہ کے درمیان ایک اور تفاوت یہ پید اہوئی ہے کہ صوبائی صدر مقام لیہہ میں مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت کی اس جانبدارانہ فعالیت کے بعد جو صورتحال خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں بن رہی ہے وہ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے ۔ ان دونوں خطوں کے عوام صوبائی درجے اور پہاڑی ترقیاتی کونسل کے قیام کیلئے ایجی ٹیشن پر آمادہ ہیں اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں بھی انکی حمایت کررہی ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے عوام کی طرف سے پچھلی تین دہائیوں سے لداخ کی طرز پر پہاڑی ترقیاتی کونسلوں کے قیام کا مطالبہ کیاجارہاہے، جس سلسلے میں کم و بیش قانون سازیہ کے ہر ایک اجلاس کے دوران مقامی ممبران کی طرف سے بل ، قراردادیں اور توجہ دلائو تحاریک بھی پیش کی گئیں لیکن بدقسمتی سےوقت وقت پر صاحب ِ اقتدار سیاسی جماعتوں نے اس مانگ کو نظر انداز کردیا جو آج سب ڈویژن یا صوبائی درجے کی حمایت کررہی ہیں ۔اگر ان دونوں خطوں کے جغرافیائی خدوخال اور پسماندگی پر نظردوڑائی جائے تو ان کا حال لداخ سے کئی درجہ بد تر ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے یہ دونوں خطے لداخ سے دس گنا بڑے ہیں اور اسی طرح سے مسافت کے اعتبار سے یہ کم و بیش جموں سے اتنے ہی دور ہیں جتنا کہ سرینگر سے لیہہ ۔لہٰذا ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ کا ان دونوں خطوں کو نظرانداز کردینا افسوسناک ہے اور اس سے ان دونوں خطوں کے عوام میں پایاجارہا غم و غصہ اور احساس کمتری اور بھی بڑھ جائے گا۔اختیارات کی بنیادی سطح پر منتقلی ایک بہتر اقدام ہے لیکن اس عمل میں انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں او ر مخصوص مقاصد کیلئے کسی خطے کے ساتھ ایک سلوک تو کسی کے ساتھ دوسرا سلوک روانہیں رکھاجاسکتاکیونکہ اس کے نتیجہ میں عوام میں بے چینی بڑھ سکتی ہے جس کی ریاست جموں وکشمیر متحمل نہیں ہوسکتی۔