3فروری کو وزیراعظم کے دورے کے بعد ہفتہ بھر کے اندر ہی گورنر ستیہ پال ملک نے9فروری کے روز ایک (اور)غیر معمولی تاریخی فیصلہ لیتے ہوئے صوبہ کشمیر کے دو حصے کرکے لداخ کو کشمیر سے جدا کرکے ایک الگ صوبہ کا درجہ دیکر وہاں فوراً ڈویژنل کمشنر کی تعیناتی کے احکامات بھی صادر کر ڈالے ۔نئے صوبہ کا صدر مقام حسب توقع لیہہ کو قرار دیاگیا ہے ۔اگر چہ اس فیصلہ کے خلاف کرگل میں صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے اور انہیں کسی نہ کسی طرح راضی کرلیا جائے گا۔فیصلہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مقامی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس او ر پی ڈی پی نے اگر چہ اس فیصلہ کے خلاف کچھ نہیں کہا تاہم پی ڈی پی نے تھوڑی سی آواز بلند کرکے جموں خطہ کے وادی چناب اور پیر پنچال کو بھی صوبائی درجہ دینے کی مانگ کی ہے جو حالانکہ آبادی کے اعتبار سے اور ہمالیائی خطہ ہونے کی وجہ سے اس کے زیادہ حقدار قرار دئے جاسکتے ہیںتاہم اس بارے میںسرکار میں کوئی جنبش نظر نہیں آرہی ہے ۔
لداخ کو صوبائی درجہ دینے سے قبل اس سال اس کو پورے بھارت میں سب سے بااختیار دو ہل کونسلیں عطا کرنے کا اعزازبھی بخشا گیا ہے اس لئے انہیں کچھ زیادہ احتیاج نہ تھی صرف یہ کہ وہ عرصہ سے مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے کی بات کررہے تھے ۔اب صوبائی درجہ سے انہیں گویا حد سے زیادہ ہی مل گیا ہے ۔وہ ٹیکس خوردگی کیلئے ریاست کا حصہ بھی ہیں ،اختیارات کیلئے ہل کونسل بھی رکھتے ہیں اور اب مکمل انتظامی اور ترقیاتی اختیارات اور رقوم کیلئے انہیں صوبہ بھی حاصل ہوچکا ہے ۔لداخ کی مجموعی آبادی 2011مردم شماری کے مطابق 2.74لاکھ ہے ۔اس کے باوجود اتنی قلیل آبادی کو صوبائی درجہ دیا گیا۔یہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے ۔لداخ باقی اصولوں کے اعتبار سے بھی ہرگز کوئی پسماندہ علاقہ نہیں ہے ۔1992میں یہاںکی ساری آبادی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دیکر مرعات کی بارش سے نوازا جاچکا ہے ۔دوسرے خطوں کی طرح یہاں غربت کا نام ونشان نہیں ہے ۔شرح خواندگی ریاست کی شرح خواندگی کے مقابلے میں73%ہے اور دولت کی ریل پیل ہے۔یہاں ریاست کا بجٹ بھی انہیں دستیاب ہے ،شیڈول ٹرائب کے مرعات بھی ہیں ،نوکریاں بھی ہیں ،بین الاقوامی سطح کی سیاحت کے پیسوں کی ریل پیل بھی ہے ، این جی او ز اور تجارت بھی ہے اور آرمی کے رقوم کا بھی بہت بڑا مصرف ہے ۔یوں یہ خطہ پورے ہندوستان میں ترقی اور دولت کی ریل پیل کے اعتبار سے منفرد علاقہ ہے ۔
پھر بھی اس کو صوبائی درجہ دینا کسی کیلئے بھی قابل حیرت ،قابل اعتراض اور فکر مندی کی بات نہ ہوتی اگر اس فیصلہ کی تہہ میں فرقہ واریت اور کشمیر کے ساتھ خدا واسطے دشمنی کا قومی عنصرموجودنہ ہوتا۔اس فیصلہ کی خمیر میں کشمیر دشمنی کا مشترکہ عنصر کارفرما ہے یعنی فیصلہ لینے والوں اور لداخیوں دونوں میں یہ موجود ہے کیونکہ اگر یہ کوئی اصول ہوتا تو پھر پیر پنچال اور وادی چنا ب کے حق میںبھی اس طرح کے فیصلے صادر کئے جاتے ۔اور سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ گزشتہ 28برسوں سے لداخی نہیں بلکہ کشمیر کے لوگ ظلم ،مصائب اور ناانصافیوں کا شکار رہے ہیں۔اُن کے حق میں کوئی مثبت فیصلہ کبھی نہیں لیاجاتا ہے بلکہ ہر ایک رنگ میں کشمیر دشمنی اور انتقام نظر آتا ہے۔اس کی برمحل مثال حالیہ ہوائی جہازوں کے کرایہ سے بھی سمجھ میں آتی ہے جس کے بارے میں اب مرکزی سرکار برملا کہتی ہے کہ انہیں کرایہ کی شرحوں کو مقرر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔دلّی کے ٹھگ کشمیریوں کو جتنا لوٹ سکیں،انہیں کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔حیدر آباد سے دوبئی یا افغانستان سے دہلی کا کرایہ محض چند ہزار روپے ہے ۔دلّی سے لیہہ کا کرایہ صرف چار ہزار کے آس پاس مستحکم رہتا ہے لیکن سرینگر سے دلّی یا دلّی سے سرینگرکا کرایہ اٹھارہ ہزار سے پچیس ہزاربلکہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔چاہے اس سے ہم پر بُرا اثر پڑے ،بیمار مرجائیں یا تجارت تباہ ہوجائے،دلّی کو کوئی پرواہ نہیں۔انتقام کا ہی جذبہ ہر ایک فیصلہ میں رواں دواں ہے جس میں لداخ کو صوبائی درجہ بھی دینا شامل ہے ۔لداخی اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں۔وہ نوکریوں اور ترقی کی بات نہیں کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ خطہ دونوں معاملات میں کشمیر سے سینکڑوں میل آگے ہے البتہ وہ اس فیصلہ کو بھی کشمیر دشمنی کے طور پر منا رہے ہیں۔یہ وہ دشمنی ہے جو وہاں گزشتہ تیس برسوں سے پروان چڑھائی گئی حالانکہ کشمیریوں نے ان کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا ہے اور نہ ان کے ذہن میں ایسی کوئی بات ہے ۔
کشمیری حکمرانوں کے خلاف سب سے زیادہ شکایات کشمیریوں کو ہیں جو انہیں اپنے مصائب کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔لیکن ماننے والی بات یہ ہے کہ تمام کشمیری حکمرانوں نے ہمیشہ ہی سے حد سے زیادہ لداخیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔انہیں آبادی کی قلت کے باوجودسیاسی اقتدار میں حصہ دار بنایا ۔باقی رہا لداخ کی سردی اور خشک پہاڑ ،وہ قدرت کی دین ہیں ،وہ کشمیریوںنے وہاں نہیں کھڑے کئے ہیں اور نہ کشمیریوںنے وہاں آکسیجن چرایا ہے جو انہیں سانس لینے میں تکلیف ہوکر کشمیرسے آزادی پر آمادہ کرتا ہے ۔گوکہ کشمیر کے جنگلوں کی لکڑی اور بالن سے لداخی ہمیشہ سے زندہ رہے ہیں۔کشمیر کے دریائوں کی بجلی سے لداخ چمکتا ہے ۔اب کی بار بھی 220کے وی اے لائن سے دو سو کروڑ کی لاگت سے کشمیر کی بجلی لداخ کو دی جارہی ہے ۔لداخ سے بہتے سندھ کا پانی کشمیر کو فائدہ نہیں پہنچاتا ہے ۔یہ محض ایک ذہنی بیماری ہے جس کو نئی دلّی نے اقتدار اور مرعات کا سامان بنایا ہے تاکہ کشمیر اور کشمیریوں سے انتقام کی ایک اور صورت کو ممکن بنایا جاسکے ۔کشمیر کو چھوڑ کر لداخ کو بڑا بنایا گیا۔اس فیصلہ پر اپنا عین متوقع ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی لیڈر اور ایم ایل سی چھرنگ دورجے نے لیہہ میں کہا کہ ان کے ساتھ دہائیوں سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے ،یوں انہیں کشمیر سے آزادی حاصل ہوگئی ،اس کیلئے وہ وزیراعظم نریندر مودی اور گورنر کے شکر گزار ہیںجو انہوںنے کر دکھایا ہے ۔کشمیر سے آزادی صوبائی درجہ کا اہم مطلب ہے ۔منصفانہ او جائزہ اصولوں کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت اور کشمیر دشمنی جو اب نئی دلّی کی رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے ،ان ریاستی او ر ملکی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے ۔لداخ کوصوبائی درجہ ہو یا ہوائی جہازوں کے ’’دلّی کے ٹھگ ‘‘کا کاروبار ہو،ہر صورت میں یہی امبیکا نظر آتی ہے ۔
منافرت اور انتقام کی یہ آخری حد نہیں قرار دی جاسکتی ہے ۔آگے اور بھی بہت کچھ ہے ۔ کشمیر کے لوگوں کو زبان اور نسل کی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور مرعات دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور انہیں سیاسی اور انتظامی معاملات میں بے دست و پا بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔تاہم اس بارے میں خود کشمیر کے سماج اور سیاست کا کیا رول ہے ؟۔کیا وہ 35-Aکی طرح کسی طو ر پر چند اہم اور بنیادی مفادات کے تحفظ کیلئے متحدہ آواز اٹھاسکتے ہیںکہ نہیں؟۔کشمیر کی سیاست اس قدر تقسیم در تقسیم ہے کہ نئی دلّی کو بھی معلوم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔اس لئے کشمیر اور کشمیریوںسے آزادی ہر سطح پر عملائی جارہی ہے جس میں زبان و نسل ،مذہب و علاقہ ،پارٹی اور سیاست بھی شامل ہے ۔ایک اہم ترین مقصد یہ بھی ہے کہ بی جے پی44+کے تحت آئندہ انتخابات میں جموں کا وزیراعلیٰ بنا کر سارا کھیل تمام کردے گی لیکن تب تک گورنر کے ہاتھوں وہ کشمیری دشمنی میں اپنے خوابوں میں سارے زعفرانی رنگ بھرنے کی کوشش کریں گے ،اس لئے اسمبلی انتخابات میں زیادہ جلدی نہ ہو۔
لداخ کو صوبائی درجہ حاصل ہونے کی بات ہو،44+ہو یا 35-A،سارے معاملات میں کشمیر اور کشمیریوں سے آزادی اس ملک کا ایک اہم ترین نظریاتی اور سیاسی پلان ہے ۔ لیکن اس پر صرف واویلا ہی کافی نہیں ہوگا۔ستر لاکھ کشمیری عوام یونہی دماغ کُند کرکے ہرلحظ اپنی بربادی کا تماشہ نہیں دیکھ سکتے ہیں۔سماج کے بااثر ،باشعور طبقوں اور باضمیر سیاسی حلقوںکیلئے لازم ہے کہ وہ اس صورتحال کو بڑی سنجیدگی سے لیکر وطن کی فکر کریں کیونکہ دھیرے دھیرے کشمیر اور کشمیریوں کو بے دست و پا بنانے کا ہر سطح پر سامان کیاگیا ہے۔
ماخوذ: ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر