آر ایس ایس کے خاکوں میں رنگ بھرنے والے قوم کے دشمن: ترجمان
سرینگر//لبریشن فرنٹ نے پی ڈی پی لیڈر اور ریاستی وزیر نعیم اختر کے بیان کے رد عمل میں کہا ہے کہ ’’دو چہرے رکھنے والے لوگ جنہوں نے ۱۹۹۰ ء میں محض اپنے ذاتی مفادات کیلئے پورے کشمیر کو 72ا یام تک محصور رکھا تھا کو لمبے احتجاجی پروگراموں پر ہرزہ سرائیاں زیب نہیں دیتیں۔۱۹۹۰ کے عوامی انقلاب کے بعد سے جموں کشمیر میں تعلیمی تناسب میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک آزادی نے اس قوم کو خاص طور پر تعلیم کے میدان میں کیا کچھ دیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اور اسکے مقامی حامیوں کا جبر وظلم کشمیری جوانوں کو پشت بہ دیوار کرکے عسکری جدوجہدکی جانب دھکیل رہا ہے‘‘لبریش فرنٹ کے ترجمان اعلیٰ رفیق احمد ڈار نے وزیر تعلیم نعیم اختر کے الزامات، جو انہوں نے فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک پر عائد کئے تھے ،کے ردعمل میں کہا ہے کہ نعیم اختر کا بیان مضحکہ خیز اور ان کی واضح بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے ۔فرنٹ ترجمان نے کہا کہ جے کے ایل ایف اور اسکی قیادت کو ایک دو چہرے والے سیاست کار اور جماعت کی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو اپنے آپ کو خودساختہ طور پر انسانی حقوق کے چمپین گردانتے پھرتے ہیں لیکن جنہوں نے پچھلے 110 ایام سے جموں کشمیر کے لوگوں پر بے اتنہا مظالم ڈھاکر نئے ریکارڈ بناڈالے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 1988 سے قبل بھی بھارت اور اسکے ریاستی حامیوںنے جموں کشمیر کے لوگوں خاص طور پر جوانوں جو ناجائز قبضے کے خلاف پرامن طور پر جدوجہد و مقاومت میں یقین رکھتے تھے پر مظالم کی انتہا کی تھی اور انہیں بھی پشت بہ دیوار کرکے عسکری تحریک کی جانب دھکیل دیا تھا اور آج بھی کوئی ذی ہوش اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ 2008،2010 اور2011 میں بھی بھارت اور اسکے حامیوں نے یہاں پرامن جدوجہد میں شامل جوانوں جن میں شہید برہان وانی اور ان جیسے کئی جوان شامل تھے، پر بھی زمین تنگ کرکے، انہیں ٹارچر کرکے، ان کے خاندانوں ،والدین اور دوستوں کو تنگ طلب اور ذلیل کرکے عسکریت کی جانب دھکیل دیا ۔ ترجمان نے کہا کہ نعیم اختر اور انکی جماعت بھی اس حوالے سے نیشنل کانفرنس کے خلاف بیان دیتی رہی ہے لیکن جیسے ہی انہیں حکومت عطا کی گئی ان لوگوں کو یہ بیان اور باتیں اجنبی دکھائی دینے لگی ہیںاور آج 2010 میں یہی لوگ محض 110 دن کے اندر سو سے زیادہ معصوموں کو تہہ تیغ کرچکے ہیں، بیس ہزار سے زائد لوگوں کو زخمی کرچکے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کی بینائی چھین چکے ہیں نیز آج یہی ہیں جو لوگوں کے رہائشی گھروں کی تباہی، لوگو کی مار پیٹ اور دس ہزار سے زائد معصوم کشمیریو ں جن میں سے بڑی تعداد طلباء کی ہے کو پابند سلا سل کردینے کو اپنی بہادری سمجھتے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ اسی تناظر میں لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت کو پاکستان پر الزام دھرنے کے بجائے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ مظالم کی انتہا اور سیاسی کاوشوں کیلئے مکانیت کی مسدودی کی وجہ سے کشمیری جوان بڑی تعداد میں ہتھیار اٹھاسکتے ہیں اگر انہیں کسی جانب سے یہ میسر ہوں گے لیکن اس بیان کو صحیح تناظر میں لینے کے بجائے نعیم اختر اور انکی جماعت اسے نئی جہت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یاسین ملک اور انکی جماعت کیلے منافقوں کی یہ نئی ہرزہ سرائیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں .ترجمان نے کہا کہ نعیم اختر یہ کہہ کر کہ ہم نے اسکولو ں کے جلائے جانے میں طلباء کو ملوث ٹھہرانے کی کوشش کی ہے دراصل اپنے الفاظ ہمارے منہ میں ڈالنے کی ناکام سعی کررہے ہیں اور ساتھ ہی ہماری جانب سے اُٹھائے گئے اصل سوال سے بچنے کی کوشش بھی کررہے ہیں ۔ ہم نے کہا ہے کہ اسکولوں کے جلائے جانے کے شیطانی کام میں ان سیاست کاروں کا ہاتھ ہوسکتا ہے جنہوں نے ۱۹۸۶ ء میں اپنے سیاسی مفاد کی تکمیل جس کا مقصد غلام محمد شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹوانا تھا کیلئے جنوبی کشمیر میں مندروں تک کو بھی خاکستر کردینے میں عار نہیں سمجھا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اسکولو ں کو نذر آتش کردینے کے مکروہ عمل میں چیف منسٹر اور وزیر تعلیم ذمہ دار ہیں کیونکہ ان لوگوں نے سب ٹھیک ٹھاک ہے کی سیاست کاری کیلئے طلباء کو تنگ طلب کردینے، ان کی اسکولوں اور ان کے امتحانات تک پر سیاست کاری شروع کررکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ حیران کن طور پر نعیم اختر اپنے آپ کو تعلیم کا چمپین اور ہمیں تعلیم کا دشمن گردانتے پھررہے ہیں حالانکہ بھارت اور اسکلے ریاستی حامیوںنے ۱۹۹۰ تک اس قوم کو حقیقی تعلیمی ترقی سے کوسوں دور رکھا ہوا تھا اور یہ ۱۹۹۰ میں جے کے ایل ایف کا لایا ہوا انقلاب تھا جس نے کشمیریوں کیلئے نئی راہیں کھول دیں اور کشمیر اور کشمیریوں کو ترقی اور تعلیم کے نئے میدانوں سے روشناس ہونے کے قابل بنادیا۔ ترجمان نے کہا کہ آج نعیم اختر اور انکی حکومت اپنی ضد، انا اور حکمرانی کو بچانے کیلئے ہمارے ہزاروں لاکھوں بچوں کی زندگی اور کیرئر سے کھلواڑ کررہے ہیں اور امتحانات کے انعقاد کے نام پر سیاست کھیل رہے ہیں جو ہر لحاظ سے نامناسب ہے۔نعیم اختر کے اس دعوے کہ ہم نے اس قوم کو لمبے احتجاج سے پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا ہے پر ترجمان نے کہا کہ نعیم اختر جانتے ہی ہوں گے کہ پچھلے 110 ایام سے کشمیر کے لوگ احتجاج میں مصروف ہیں کیونکہ پی ڈی پی کی ایماء پر ان کے ایک سو کے قریب معصوم گولیوں، پیلٹ اور شیل مار مار کر تہہ تیغ کئے جاچکے ہیں۔ عوام احتجاج کررہے ہیں کیونکہ نعیم اختر کی حکومت نے دس ہزار سے زائد معصومین کو جیلوں کی نذر کررکھا ہے۔ لوگ برسر احتجاج ہیں کیونکہ پی ڈی پی حکومت کے کارندے ہر شام اور ہر رات ان کے گھروں کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں ۔ لوگ احتجاج کررہے ہیں کیونکہ آپریشن کام دائون کے نام پر ان پر مظالم کی بے مثال انتہا کردی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ عوامی احتجاج سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ محمد عمر فارو ق یا محمد یاسین ملک کی کوئی ذاتی رنجش یا مفاد کی تکمیل کیلئے نہیں ہورہا ہے لیکن ہم نعیم اختر کو ماضی کے جھروکے میں نظر مارنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہیں یاد دلاتے ہیں کہ جس لمبے ہڑتال کو وہ آج پتھر کے زمانے میں لے جانے کا عمل قرار دے رہے ہیں اس کا سبق بھی انہوں نے ہی اس قوم کو دیا تھا جب انہوںنے اپنی نوکری کی بحالی کیلئے ستمبر ۱۹۹۰ ء میں دوسرے کئی سرکاری آفیسران جن میں جناب غلام نبی مبارکی، مظفر احمد خان (ڈائرکٹر ہینڈی کرافٹس) ،عبدالحمید متو( چیف انجینئر)، اشتیاق قادری اور عبدالسلام ( ایڈمنسٹریٹر میونسپلٹی) کے ساتھ مل کر ۷۲ روزہ ہڑتال کیلئے پوری قوم کو ابھارا اور مجبور کیا تھا۔ترجمان نے کہا کہ نعیم اختر صاحب کو یہ قوم جان گئی ہے اور انکے نقلی نام عفت خان سے بھی ہم سبھی واقف ہیں جس کے ذریعے وہ ماضی میں تحریک آزادی کے حق میں دھواں دھار مضامین تحریر فرماتے رہتے تھے۔جے کے ایل ایف ترجمان اعلیٰ نے کہا کہ پی ڈی پی کی دوغلی سیاست اب عوام الناس کے سامنے کھل چکی ہے اور جس جماعت نے سبز لباس اور مسلمانوں کو مذہب اور انسانی حقوق کے نام پر دھوکہ دینے کی سیاست کی اور حالیہ نام نہاد الیکشن میں آر ایس ایس اور بی جے پی سے بچنے کے لئے ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی لیکن بعد ازاں پراسرار طور پر اسی بی جے پی اور آر ایس ایس سے رشتہ جوڑ کو خاص طور پر جموں کے مسلمانوں کو نہ صرف تقسیم کردیا بلکہ یہاں آر ایس ایس کی فسطائی سیاست کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کیا جرم کیا کی دوغلی سیاست اب عریاں ہوچکی ہے۔