یہ امر اطمینان بخش ہے کہ جموںوکشمیر میں کورونا مثبت معاملات میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے جبکہ اموات کی شرح میں بھی کمی کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔اگر ہم سنیچر کے کووڈ اعداد و شمار کو دیکھیں تو سنیچر کو 794جموں جبکہ 1459 افراد کشمیر میں مثبت آئے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے 1459افراد میں 6بیرون ریاستوں اور ممالک سے سفر کرکے کشمیر پہنچے جبکہ دیگر 1453 افراد مقامی سطح پر رابطے میں آنے کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے اور یوں سنیچر کو مثبت کیسوں کی شرح مزید کم ہوکر 5فیصدرہ گئی تھی ۔سنیچر کو ہی کل ملاکر46اموات جموںوکشمیر میں ریکارڈ کی گئی تھیں جن میں سے جموں صوبہ میں30جبکہ کشمیر صوبہ میں فقط16اموات ریکارڈ ہوئی تھیں۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو صورتحال بہتر ہورہی ہے اور نہ صرف مثبت کیسوںکی شرح بدستور گھٹتی ہی چلی جارہی ہے بلکہ صحتیابی کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں اموات کا کم ہونا فطری بات ہے۔بلا شبہ جموں صوبہ کے مقابلہ میں کشمیر صوبہ میں کچھ زیادہ کیس سامنے آرہے ہیں تاہم یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جموں میں اموات کی شرح کشمیر کے مقابلے میں بدستور زیادہ ہے ۔اس دوران حکومت کی جانب سے گزشتہ روز جو نئی زمرہ بندی کی گئی ،اس میں جموں کے سبھی اضلاع نارنگی زون میں رکھے گئے جبکہ کشمیر میں صرف سرینگر ضلع نارنگی زون ہے جبکہ باقی سبھی اضلاع مسلسل ریڈزون میں ہے ۔اس زمرہ بندی کیلئے کئی پیمانے مقرر کئے گئے جن میں انفیکشن کا پھیلائو اور ٹیکہ کاری کی شرح اہم ہیں۔نئی زمرہ بندی ہمیں دکھارہی ہے کہ حالا ت گوکہ قدرے بہتر ہوچکے ہیں تاہم ابھی اتنے بہتر بھی نہیںہوئے ہیں کہ ہم خوشیاں منائیں۔بلا شبہ لاک ڈائون لگے ہوئے اب ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے اور لاک ڈائون کی وجہ سے سماج کے کم و بیش سبھی طبقے متاثر ہوچکے ہیں خاص کر غریب اور مزدورطبقہ نان شبینہ کا محتاج بن چکا ہے جن کی دادرسی ناگزیر بن چکی ہے اور کووڈ کنٹرول کمیٹی نے اس کی سفارش بھی کی ہے اور جزوی نرمی کی تجویز بھی دی ہے تاہم یہ وقت بے احتیاطی کا نہیں ہے ۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ حکومت کیلئے بھی موجودہ صورتحال چیلنجوں سے پُر ہے اور انہیں عوام کی بہبودی کیلئے کٹھور فیصلے لینے پڑتے ہیں جن پر عمل بھی ہوتا ہے تاہم عوام کی جان بچانے کے عمل میں کٹھور اور سخت فیصلہ لیتے وقت حکومت کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ ان فیصلوں کی وجہ سے آباد ی کا ایک بہت بڑا حصہ بری طرح متاثر ہوتا ہے اور انہیں کھانے کے لالے پڑتے ہیں۔شاید انہی مخدوش حالات کو دیکھتے ہوئے کووڈ کنٹرول کمیٹی نے ایسے طبقوں کی امداد کی سفارش کی تھی جو بقول مذکورہ کمیٹی کے ایک سینئر ممبر ڈاکٹر محمد سلطان کھورو کی وجہ سے نہ ہوسکی ۔مانا کہ مجبوریاں ہیں اور حکومت کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں تاہم محدود وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ارباب بست و کشاد زمینی حقائق سے ان دیکھی نہیں کرسکتے ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ اس حقیقت سے مکمل طور پر واقف ہوگی کہ لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوں پر کیا گزر رہی ہوگی ۔حکومت کہتی ہے کہ اگر لاک ڈائون نہ لگایا گیا ہوتا تو تباہی مچی ہوتی ۔اس سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ لاک ڈائون نے معاملات کو سنبھالنے میں کافی مدد دی لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم لاک ڈائون کو مسلسل بطور ہتھیار استعمال کرتے رہیں۔لاک ڈائون محدود وقت کیلئے لگایا جاسکتا ہے اور یہ کوئی مستقل ہتھیار نہیں ہے کیونکہ ان کے منفی اثرات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ہمارا ملک ابھی گزشتہ برس سے لاک ڈائون سے نہیں ابھرپارہا ہے اور ایسے میں جموںوکشمیر میں دوسرا لاک ڈائون معاشی خودکشی کے مترادف ہے ۔اس کے باوجود بھی اگر اقتدار کے گلیاروں میں بیٹھے لوگوںکو لگتا ہے کہ ابھی مزید کچھ وقت کیلئے لاک ڈائون یا کورونا کرفیو لگانا ضروری ہے تو بے شک لگائیں لیکن پھر عوام کی راحت رسانی کے سامان بھی کریں۔یہ وقت ہے کہ حکومت کو پسماندہ طبقوں کی امداد کیلئے آگے آنا چاہئے اور لاک ڈائون کی وجہ سے جن لوگوںکی روزی روٹی متاثر ہورہی ہے ،ا ن کی روزی روٹی کا بندو بست کرنا چاہئے ۔ظاہر ہے کہ ایسے لوگ مزید انتظار نہیں کرسکتے ہیںکیونکہ وہ نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔سرکار اگر چاہتی ہے کہ لاک ڈائون سے ہی معاملات کو سنبھالاجائے تولاک ڈائون کی وجہ سے جن لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں،ان کی دادرسی کرنا سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے ۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو انہیں بھی اپنی ذمہ داریوں کاادراک کرتے ہوئے اس وباء سے نجات پانے کیلئے غیر ضروری سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہئے اور سرکار کا تعاون کرکے سماجی فاصلے برقرار رکھنے چاہئیں تاہم یہ سب جبھی ممکن ہے جب سرکار عوام کی ضروریات کا خیال رکھے ۔صبح شام سبزی اور اشیائے ضروریہ کی دکانیں کھولنے سے معیشت کا پہیہ نہیں چلتا ہے ۔یہ پہیہ تب چلتا ہے جب سماج کے سبھی طبقے حرکت میں ہوں۔فی الوقت کم و بیش سبھی طبقے ساکت ہیںاور ایسے میں معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں بھکمری جیسی صورتحال پیدا ہونا فطری ہے ۔اس لئے سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے طبقوں کیلئے فوری ریلیف پیکیج کا اعلان کرے جو موجودہ صورتحال سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں تاکہ ان کی روزی روٹی کا بندو بست کیاجاسکے اور لاک ڈائون کے مطلوبہ اہداف بھی حاصل کئے جاسکیں۔