بلال فرقانی
سرینگر// جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے بچیوں کی فلاح و بہبود اور صنفی توازن کو درست کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی’’لاڑڈلی بیٹی اسکیم‘‘آج خود ایک پیچیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے وادی کے سینکڑوں والدین اس اسکیم کے تحت کھولے گئے بینک کھاتوں میں رقومات کی منتقلی کے بند ہونے پر سخت اضطراب کا شکار ہیں۔ بچیوں کے تحفظ، تعلیم اور مستقبل کی تیاری کے مقصد سے شروع کی گئی اس اسکیم کو ایک دہائی قبل مفتی محمد سعید کی سربراہی میں متعارف کرایا گیا تھا، جس کا بنیادی ہدف کمزور اور غریب طبقے میں پیدا ہونے والی لڑکیوں کو بوجھ نہیں بلکہ سرمایہ بنانے کی سمت ایک ٹھوس قدم تھا۔ابتدا میں اسکیم نے کافی مقبولیت حاصل کی اور کئی برس تک اس کے ثمرات والدین اور بچیوں تک پہنچتے رہے۔ تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران مختلف بینک برانچوں میں ایسے سینکڑوں معاملات سامنے آئے ہیں جہاں چھوٹی تکنیکی خامیوں یا معمولی دستاویزی تضادات کی بنیاد پر کھاتے معطل یا غیر فعال کر دیے گئے ہیں۔ نتیجتاً، بچیوں کے کھاتوں میں حکومتی امداد کی رقم آنا بند ہو گئی ہے۔کشمیر عظمیٰ کو متعدد والدین نے اپنی پریشان کن صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بینکوں کی جانب سے انہیں کھاتے اپ ڈیٹ کرنے کے لیے طلب کیا گیا، لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو معمولی غلطیوں کی وجہ سے ان کے دستاویزات مسترد کر دیے گئے۔ کئی والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بچیوں کے ناموں کے ہجے اسکول ریکارڈ یا پیدائشی اسناد میں معمولی طور پر مختلف تھے، کچھ کے تاریخِ پیدائش میں اصلاح کی گئی تھی، جبکہ کچھ معاملات میں صرف شناختی تفصیلات میں عددی فرق پایا گیا، لیکن متعلقہ بینک برانچوں نے انہیں اپڈیٹ کرنے سے انکار کیا۔رمیز احمد نامی ایک والد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے نام کی’’ اسپیلنگ‘‘(ہجہ) اسکیم شروع ہونے کے بعد درست کی گئی تھی، جس کے لیے انہوں نے عدالت اور سرینگر میونسپل کارپوریشن سے مصدقہ دستاویزات بھی حاصل کیے، مگر بینک نے وہ دستاویزات لینے سے انکار کر دیا۔ انہیں متعلقہ چائلڈ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ آفیسر کے دفتر رجوع کرنے کو کہا گیا، جہاں سے انہیں سیکریٹریٹ بھیجا گیا۔ لیکن سیکریٹریٹ میں بھی انہیں کوئی حل فراہم نہ ہو سکا اور ذمہ داری کا بوجھ محکمہ خزانہ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔اسی طرح شفقّت احمد نے بتایا کہ ان کے بچی کے کھاتے میں ایک عدد کی غلطی بینک نے خود کی تھی، لیکن بعد میں بینک نے اپنی ہی کی گئی اصلاح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کے کھاتے میں رقم آنی بند ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اسکیم سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ انہیں بنک و محکموں کے درمیان چکر لگانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔والدین کا کہنا ہے کہ ’سی ڈی پی ائو‘دفاتر اور بینکوں کے درمیان کوئی مربوط نظام موجود نہیں جو ایسے تکنیکی مسائل کو حل کر سکے۔ سرکاری دفاتر کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے اور والدین کو محض ادھر ادھر بھیجا جا رہا ہے۔ کئی والدین کی جانب سے وزیر برائے سماجی بہبود، محترمہ سکینہ ایتو سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں ذاتی مداخلت کریں اور اسکیم میں پیدا ہوئی رکاوٹوں کو ختم کر کے متاثرہ بچیوں کو ان کا جائز حق فراہم کروائیں۔ کشمیر عظمیٰ نے محترمہ سکینہ ایتو سے اس معاملے پر موقف لینے کی کوشش کی، تاہم ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔