سرینگر /سال2015میں شروع کی گئی لاڈلی بیٹی سکیم ابھی تک ریاست کے صرف 7اضلاع تک ہی محدود ہے جبکہ باقی 15اضلاع میں یہ سکیم شروع کرنے میں سابق سرکار اور گورنر انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ نو زائد بچیوں کے لئے اکاونٹ کھولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ اس کیلئے کافی سخت لوازمات رکھے گئے ہیں۔ ایسی بچیوں کے والدین کوایک آفس سے دوسرے آفس تک چکر کاٹنے پڑتے ہیں تب جا کر وہ بچیوں کے اکاونٹ کھول سکتے ہیں ۔سال2015میں ریاست میں اس سکیم کاا علان سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے کیا تھا اور سکیم کا مقصد ریاست کی بیٹیوں کو سماجی مدد فراہم کرنا تھا اور اس منصبوے کو کنورای لڑکیوں کی موت کی روک تھام اور بچیوں کا حمل گرانے کی شرح کم کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا ۔اسکیم چالو کرنے کے بعد یہ کہا گیا کہ یکم اپریل 2015سے پیدا ہونے والی ہر رجسٹر بچی کے اکاونٹ میںہر ماہ 1000 روپے ریاستی سرکار ڈالا کرے گی۔اس سکیم کے دو مرحلے ہیں۔پہلا مرحلہ 7سال میں مکمل ہوگا اور دوسرا مرحلہ 21برس کی عمر میں مکمل کیا جائیگا۔لیکن اس دوران بچی کے اکاونٹ سے کوئی بھی رقم نہیں نکالی جائیگی۔سکیم مکمل ہونے کے بعد بچی 6لاکھ کی رقم ملنے کی حقدار ہوگی۔اس سکیم کو پہلے ریاست کے 6اضلاع کٹھوعہ ، جموں ، سانبہ ، بڈگام ، پلوامہ اور اننت ناگ میں شروع کیا گیا اور اس کے بعد اس سکیم کو سرینگر میں بھی لاگو کیا گیا ۔تاہم4سال گزرنے کے بعد بھی اس کو باقی 15اضلاع میں شروع نہیں کیا گیا ۔ کپوارہ ، بارہمولہ ، بانڈی پورہ ، گاندربل ، شوپیاں ، کولگام، لیہہ ،کرگل ،رام بن ، ڈوڈہ ، ادھمپور ،پونچھ ، کشتواڑ ،ریاسی، راجوری اور کشتوار اضلاع اس سکیم سے محروم ہیں ۔ادھر پچھلے کئی ماہ سے ریاستی سرکار کی جانب سے مختلف اکاونٹوں میںماہانہ رقم نہیں آرہی ہے۔والدین سے کہا جارہا ہے کہ محکمہ کے پاس ابھی فنڈس ہی دستیاب نہیں ہیں ۔ رفیق احمد نامی سرینگر کے ایک شہری کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے اکاونٹ کھولنے میں دقتیں پیش آئیں اور اب پیسہ ہی اکاونٹس میں نہیں ڈالا جا رہا ہے ۔کشمیر عظمیٰ نے اس حوالے سے جب آئی سی ڈی ایس محکمہ کے سی ڈی پی او سرینگر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر پیسہ کسی وجہ سے رک گیا ہو گا تو اس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اگر کسی ماہ کا پیسہ نہیں آیا ہے تو وہ اکھٹا بھی آسکتا ہے ،تاہم انہوں نے کہا کہ وہ بنک سے رابطہ قائم کریں گے اور اس بات کا پتہ لگائیں گے کہ پیسہ کیوں نہیں آیا ہے ۔اس دوران اننت ناگ کے عشمقام علاقے کے رہنے والے بلال احمد نامی ایک شہری نے بتایا کہ اُن کے فارم پچھلے دو برس سے محکمہ کے آفس پر دھول چاٹ رہے ہیں ۔بلال کے مطابق گائوں والوں نے 2017میں فارم محکمہ کے آفس میں جمع کرائے لیکن دو برسوں میں نہ ہی اکاونٹ کھل سکا اور نہ ہی پیسہ ادا ہوا ۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے جب محکمہ کی ڈپٹی ڈائریکٹر کشمیر مس راشدہ اختر سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا کہ لاڈلی بیٹی سکیم وادی میں صرف 4اضلاع میں چل رہی ہے اور سکیم کے تحت آنے والے فنڈ س میں کوئی کمی نہیں ہے اور یہ پیسہ حقداروں کے اکاونٹ میں سکریٹریٹ سے ہی ڈالا جاتا ہے ۔ محکمہ کے سیکریٹری فاروق احمد لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے میٹنگ طلب کریں گے اور اس کا جائزہ لیا جائیگا ۔انہوں نے مزید کہا کہ جن اضلاع میںجنسی تناسب کم تھااُن ہی اضلاع کو اس سکیم کے تحت لایا گیا ہے ۔