سرینگر//سرینگر کے لل دید اسپتال میں جمعرات کو اسوقت ایک بچہ ماں کے پیٹ میں ہی دم توڑ بیٹھا جب ڈاکٹر وں نے طلبہ کو سکھانے کیلئے حاملہ خاتون کو بطور نمونہ استعمال کرنے کیلئے بغیر کسی اجازت کے لل دید اسپتال سے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے شعبہ انستھیزیا(Anesthesia) منتقل کیا۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج کے شعبہ انستھیزیاکے ڈاکٹروں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے سے مشکلات سے دو چار مریضہ کو واپسی پر ایمبولنس ڈرائیور کے حوالے کردیا گیا جس نے لل دید پہنچنے کیلئے ایمبولنس گاڑی اتنی تیزی سے چلائی کہ مریضہ کے پیٹ میں ہی بچے کی موت واقع ہوگئی ۔ ادھر پرنسپل میڈیکل کالج نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دیکر تحقیقاتی رپورٹ دو دنوں کے اندر پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔کشمیر میں زچگی کے سب سے بڑے اسپتال میں حاملہ خواتین کی حفاظت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گورنمنٹ میڈیکل کالج سے ایمبولنس میں سوار ڈاکٹروں نے آصفہ زوجہ روف احمد بٹ ساکن امدا کدل لال بازار کو فلمی انداز میں اسپتال سے نکال کر گورنمنٹ میڈیکل کالج کے شعبہ انستھیسیا پہنچا دیا جہاں طلبہ کو سیکھانے کیلئے اسکا استعمال بطور نمونہ کیا گیا ۔ واقعہ کی تفصیلات دیتے ہوئے مریضہ کے بھائی قیصر احمد الاہی نے بتایا کہ انکی بہن عاصفہ کو زچگی کیلئے اس مہینے کی 18تاریخ کو لل دید اسپتال میں داخل کیا گیا ۔ قیصر احمد نے بتایا کہ ہائی بلڈپریشر اور شوگر کی وجہ سے ڈاکٹروں نے عاصفہ کو مقررہ تاریخ سے قبل ہی اسپتال میں داخلہ دیا تاکہ ضرورت پڑنے پرڈاکٹر اس کا علاج و معالجے کرسکےں۔ قیصر احمد نے بتایا کہ ایک ہفتے سے سب ٹھیک چل رہا تھا اور مریضہ میں کافی بہتری آئی تھی مگر زچگی میں پیچیدگیاں موجود رہیں اور اسلئے مریضہ کو اسپتال میں ہی رہنا پڑا۔ قیصر احمد نے بتایا کہ جمعرات قریب 11بجے سفید وردی میں ایک ڈاکٹر صاحب نمودار ہوئے اور ہماری بہن کو صدر اسپتال منتقل کرنے کیلئے کہا۔ قیصر الاہی نے بتایا کہ عاصفہ کے ہمراہ ہماری ماں کے علاوہ بہنیں بھی گئیں۔ قیصر الائی نے بتایا کہ صدر اسپتال پہنچنے کے بعد مریضہ کو شعبہ انستھیزیامنتقل کیا گیا جہاں عاصفہ کے علاوہ دیگر دو اور مریضوں کو لایا گیا تھا۔ قیصر احمد نے بتایا کہ شعبہ ا نستھیزیامیں عاصفہ کا استعمال طلبہ کو سیکھانے کیلئے بطور نمونہ کیا گیا اور یہ سلسلہ دو گھنٹوں تک جاری رہا ۔ قیصرنے بتایا کہ پیچیدگیوں کی موجودگی کے باﺅجود بھی مریضہ کو ڈاکٹر کی نگرانی میں ایس ایم ایس ایچ منتقل کیا گیا جبکہ واپسی پر گاڑی میں کوئی بھی ڈاکٹر موجود نہیں تھا اور مریضہ کو ایمبولنس ڈرائیور کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا۔ قیصر احمد نے بتایا کہ گورنمنٹ میڈیکل کالج سے لل دید منتقلی کے دوران ڈرائیور نے اتنی تیزی سے گاڑی چلائی کہ مریضہ کے جسم سے خون نکلنے لگا۔ مریضہ اور انکی ماں نے کئی بارایمبولنس ڈرائیور کو گاڑی آہستہ چلانے کو کہا مگر اس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ قیصر نے بتایا کہ عاصفہ دن کے تین بجے واپس لل دید پہنچی مگر ہماری درخواستوں کے باﺅجود بھی ڈاکٹروں نے پانچ بجے تک مریضہ کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ قیصرنے بتایا کہ شام 5بجکر 20منٹ پر ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ مریضہ کے جسم سے خون نکلنے کی وجہ سے بچے کی موت ہوئی ہے اوربچہ ماں کے جسم میں ہی دم توڑ بیٹھا ہے۔لل دید اسپتال کی ڈپٹی میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر عفرا شاہ نے بتایا ”تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور رپورٹ ملنے پر ہی اصل حقائق کا پتہ چلے گا۔ا دھر جمعرات شام پرنسپل میڈیکل کالج ڈاکٹر سامیہ رشید نے اپنے ایک حکم نامہ زیر نمبر PC/MC/17/392-96بتاریخ 25/05/2017کے تحت واقعہ کی تحقیقات کیلئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مریضہ کے ساتھ پیش آئے واقعات کی تحقیقات کرے گی اور ذمہ داروں کی نشاندہی کے علاوہ انکے خلاف کاروائی کی سفارش کرے گی۔ تحقیقاتی کمیٹی میں ایچ او ڈی شعبہ زچگی جی ایم سی، ایچ او ڈی انستھیزیا، ایچ او ڈی زچگی لل دید اسپتال( یونٹ ہیڈ جمعرات) اور میڈیکل سپر انٹنڈنٹ لل دید پر مشتمل ہے جبکہ پرنسپل میڈیکل کالج نے کمیٹی کو دو دنوں کے اندر تحقیقات کرنے کا حکم دیا ۔