عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// دہلی میں تاریخی لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے قریب پیش آئے خوفناک بم دھماکے کے بعد تحقیقات کا دائرہ جموں و کشمیر تک پھیل گیا ہے ۔ اس معاملے کو قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے) کے حوالے کر دیا گیا ہے۔پلوامہ پولیس نے دھماکے کے مرکزی مشتبہ ملزم ڈاکٹر عمر نبی کے والد غلام نبی بٹ کو منگل کے روز ان کے قوئل (پلوامہ) واقع گھر سے حراست میں لیا تاکہ ان سے پوچھ گچھ کی جا سکے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس شبہ کے پیش نظر کیا گیا کہ دھماکے کے وقت کار ڈاکٹر عمر نبی چلا رہے تھے ۔ڈاکٹر عمر نبی دہلی کے قریب فریدآباد میں ایک نجی اسپتال میں خدمات انجام دے رہے تھے ۔، وہی ہنڈائی آئی 20 کار چلا رہے تھے جو پیر کے روز لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے نزدیک زوردار دھماکے سے تباہ ہوگئی، جس میں کم از کم 12 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ۔ فریدآباد میں عمر نبی کے ساتھ کام کرنے والے کئی ڈاکٹرز کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے ، تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ آیا وہ کسی طور اس نیٹ ورک یا کار کی خرید و فروخت سے جڑے ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ، کار کے لین دین سے وابستہ تین افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے ۔، تاحال کوئی باضابطہ گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے لیکن تحقیقات تیزی سے جاری ہیں۔ دہلی پولیس کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دھماکے سے پہلے ایک شخص کو کار چلاتے ہوئے دیکھا گیا، جو مبینہ طور پر ڈاکٹر عمر نبی معلوم ہوتے ہیں۔ابتدائی تحقیقات میں پولیس کو شبہ ہے کہ دہلی دھماکے میں امونیم نائٹریٹ، فیول آئل اور ڈیٹونیٹرز کا استعمال کیا گیا۔حکام نے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے سانبورہ پلوامہ کے طارق احمد ملک، جو جے کے بینک برانچ نیوہ میں گارڈ ہیں، کو ایک اور نوجوان عامر رشید میر کیساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔ طارق اور عامر نے ڈاکٹرعمر کو i20 دی تھی۔دہلی پولیس، این آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ٹیموں نے دہلی اور کشمیر بھر میں بڑے پیمانے پر چھاپہ ماری جاری رکھی ہے۔پلوامہ سے جن 4افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان چار میں سے دو کو دہلی دھماکے کے ساتھ ساتھ بین ریاستی دہشت گردی کے ماڈیول میں ان کے کردار کے لیے مشترکہ پوچھ گچھ کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے۔
دلی اور لکھنو میں چھاپے
دہلی پولیس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام)ایکٹ اور دھماکہ خیز مواد ایکٹ کے تحت ان دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔دہلی اور اتر پردیش میں بھی کئی مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس اور قومی راجدھانی کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشنوں اور بس ٹرمینلز پر سخت نگرانی رکھی گئی ہے۔پولیس نے بتایا کہ گاڑی چلانے والے نقاب پوش شخص کے بارے میں مزید جاننے کے لیے لال قلعہ اور اس سے ملحقہ راستوں کے سی سی ٹی وی فوٹیج کو اسکین کرنے کے لیے متعدد ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ دھماکے سے قبل گاڑی قریبی پارکنگ میں تین گھنٹے تک کھڑی تھی، مختلف پارکنگ لاٹس کی فوٹیج کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ مشتبہ افراد کا پتہ لگانے کے لیے دریا گنج اور پہاڑ گنج علاقوں میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میں رات بھر تلاشی مہم چلائی گئی۔لال قلعہ میٹرو سٹیشن کو مسافروں کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور علاقے میں ٹریفک پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔حکام نے بتایا کہ کار کی ٹوٹی ہوئی باقیات سے ایک مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔ 20 زخمیوں میں سے 12 دہلی کے رہائشی ہیں اور آٹھ کا تعلق دیگر ریاستوں سے ہے جن میں اتر پردیش، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش شامل ہیں۔
این آئی اے
وزارت داخلہ نے منگل کو لال قلعہ کے قریب ہوئے دھماکے کی جانچ قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے)کو سونپ دی ہے۔یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اس دھماکے میں، جس میں اب تک 12 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، حکومت اسے ملی ٹینسی کی کارروائی کے طور پر مان رہی ہے، کیونکہ این آئی اے کو صرف دہشت گردی کے معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔یہ فیصلہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے دھماکے کے بعد قومی دارالحکومت اور ملک کے دیگر حصوں میں سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے چند گھنٹے بعد آیا۔