جموں// بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈر اور محبوبہ مفتی کی قیادت میں وزیر رہ چکے چودھری لال سنگھ نے گزشتہ روز وادی کشمیر کے صحافیوں کو ’شجاعت بخاری جیسے انجام‘ سے متنبہ کرتے ہوئے کٹھوعہ عصمت دری و قتل معاملہ کے بارے میں غلط تاثر پیش کرنے کیلئے مورد الزام ٹھہرایا۔ لال سنگھ کو اس معاملہ کے ملزمین کے حق میں کی جانے والی ریلی میں حصہ لینے کی پاداش میں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ جمعہ کومنعقدہ پریس کانفرنس میں کٹھوعہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کروائے جانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے ممبر اسمبلی بسوہلی لال سنگھ نے کہا کہ ’’کشمیری صحافیوں نے سارے معاملہ کے متعلق ایک غلط ماحول قائم کر دیاتھا، اب تو میں کشمیر کے صحافیوں سے کہوں گا کہ وہ اپنی صحافت کی لائن کھینچ لیں، فیصلہ کریں کہ آپ کو کیسے رہنا ہے، ایسے رہنا ہے جیسے وہ بشارت (شجاعت بخاری) کے ساتھ ہوا ہے، اس طرح کے حالات بنتے رہیں، اس لئے وہ اپنے آپ کو سنبھالیں، وہ ایک لائن کھینچیں، تاکہ یہ بھائی چارہ ختم نہ ہو اور ترقی ہوتی رہے‘۔ا س سے قبل کہ حالات بدتر ہوجائیں بہتر ہے کہ وہ خود کو کنٹرول کر لیں، انہیں ایک حد مقرر کرنی چاہئے تا کہ ریاست میں بھائی چارہ قائم رہے اور ہم بھی ترقی کے سفر میں شریک ہو سکیں۔ دریں اثنا چوطرفہ ملامت کا سامنا کرنے کے بعد لال سنگھ نے اپنے بیان کی صفائی دی ہے ۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق اور جنگجوئوں اور ان کے حمایتیوں کے بیچ ایک حد مقرر کی جانی چاہئے، حقائق کو توڑ مروڑ کا پیش کرنے کی ایک روایت بن چکی ہے ، میڈیا کی آزادی اپنی جگہ مسلّم لیکن ملک اور نیشنلزم کی قیمت پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ قابل ذکر ہے کہ لال سنگھ کا اور تنازعات کا پرانا ناطہ ہے ۔ 2016میں انہوں نے گوجر کسانوں کے ایک وفد کو جموں خطہ میں 1947کے مسلم کش فسادات کا حوالہ دے کر دھمکایا تھا تو حال ہی میں ایک ریلی کے دوران سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے کیخلاف ناشائستہ زبان استعمال کرنے کے لئے ان کے بھائی راجندر سنگھ پر مقدمہ چل رہا ہے ،جسے چندر روز قبل ایک ہفتہ حوالات میں بند رہنے کے بعدضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔