سرینگر//کشمیر ایڈیٹرس گلڈ نے چودھری لال سنگھ کے کشمیری میڈیا کو دھمکی آمیز بیان کی مذمت کرتے ہوئے اس کو مجرمانہ بیان قرار دیااور واضح کیا کہ اس طرح کے حملوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ بیان کے مطابق کشمیر ایڈیٹرس گلڈ نے کہا کہ سنیئر ایڈیٹر شجاعت بخاری کے بیہمانہ قتل کا حوالہ دیتے ہوئے چودھری لال سنگھ نے کشمیری میڈیا کو’’مشورہ‘‘ دیا ’’ وہ ایک لکیرکھینچیں‘‘ اور فیصلہ کریں’’ کہ وہ اسی طرح کام کرنا چاہتے،جس طرح سے کرتے تھے‘‘۔ بیان میں کہا گیا کہ چودھری لال سنگھ، جنہیںپہلے ٹانگوں اور منہ کی بیماریوں میں مبتلا قرار دیا جاتا تھا،نے پیش رفت کی،اور براہ راست کشمیری میڈیا کو دھمکی دی۔بیان میں مزید کہا گیا’’وہ(لال سنگھ) نے کشمیری میڈیا پر ’’غلط ماحول تیار کرنے‘‘ کا الزام عائد کیا۔انہوں نے میڈیا کو اس بات کا فیصلہ کرنے کیلئے کہا کہ وہ کس طرح جینا چاہتے ہیں اور انہیں بتایاکہ حالیہ ہلاکتوں کے پس منظر میں ’’وہ خود کو سنبھالیں‘‘۔بیان میں کہا گیا کہ بی جے پی کے ممبر اسمبلی،جنہیں کھٹوعہ میں ایک معصوم بچی کی عصمت ریزی کرنے والوں کی حمایت میں ریلی نکالنے کی پاداش میں بے دخل کیا گیا تھا،نے یہ دھمکی پریس کانفرنس میں دی۔بیان کے مطابق انہوں نے شجاعت بخاری کے قتل کا حوالہ اس وقت دیا ،جب سرینگر میں پولیس اس قتل کی تحقیقات میں مصروف ہے۔گلڈ نے بتایا کہ لال سنگھ کا بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہیں شجاعت بخاری کے قتل کے بارے میں کچھ معلومات ہیں،اور انکی اس سلسلے میں تحقیقات کی جانی چاہے۔ کشمیر ایڈیٹرس گلڈ نے بتایا کہ وہ یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ قانون ساز کے خلاف ایف آئی آر درج کریں،جس نے پہلے بھی کھٹوعہ تحقیقات کے پس منظر میں کئی نامہ نگاروں کا نام ظاہر کیا ہے۔گلڈنے کہا ہے کہ کانگریس سے بی جے پی میں آئے سیاست دان نے طاقت کے نکتہ نظر سے بہ ظاہر کشمیر میڈیا ،اور سرینگر میں حالیہ ہلاکت پر ممکنہ معلومات سے متعلق بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شجاعت کے قتل کیس میں تحقیقات کی پیش رفت جہاں سست رفتاری سے جاری ہے ،اور اس میں سرعت لائی جانی چاہے،وہیں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ایک برس سے سماجی میڈیا پر بدنام کرنے کی جو مہم شروع کی گئی ہے،اس پر روک لگا ئی جائے اور تحقیقات کر کے یہ مہم فوری طور پر بند کی جانی چاہیے۔ بیان کے مطابق کشمیر ایڈیٹرس گلڈ اظہار رائے کے حمایتی ہونے کے ناطے چاہتی ہے کہ لوگ براہ راست انہیں لکھے،برعکس اس کے انٹرنیٹ کے مشکوک کونوں سے داخل ہوں،اور صحافتی اداروں پر مجموعی اور انفرادی طور پر حملہ کریں۔انہوں نے بتایا کہ شجاعت بخاری کے قتل کے بعد گزشتہ کئی دنوں سے سرینگر کے تمام اخبارات کو پولیس نوٹسیں روانہ کر رہی ہے اور’’ذرائع‘‘ و کچھ مشتہرخبروں کی تفصیلات طلب کر رہی ہے۔گلڈ نے اس عمل کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کے نتیجے میں،ان تمام خبروںکے ذرائع،مشتہر مواد کا حصہ ہوتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر ایڈیٹرس گلڈ ان نوٹسوں کو میڈیا کو ہراساں کرنے اور سید شجاعت بخاری کے قتل کے بعد پیدا شدہ صدمے کی کیفیت کو ان خطوط، جن کا ذکر لال سنگھ کررہا ہے، پر استوار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ3دہائیوں سے کشمیر میڈیا نے استحکامت کا مظاہرہ کیا۔گلڈ نے اس بات کو دہرایا کہ وہ تمام اس طرح کے حربوں کا مقابلہ کریں گے۔
سیاسی،تجارتی اور صحافتی تنظیمیں برہم
بلال فرقانی
سرینگر// بی جے پی لیڈر اور سابق ریاستی وزیر چودھری لال سنگھ کی طرف سے صحافیوں کو دھمکی دینے پر سیاسی،تجارتی اور صحافتی تنظیموں نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس طرح کی دھمکیوں سے کشمیری صحافی پیشہ وارانہ سرگرمیوں سے دستبردار نہیں ہونگے۔نیشنل کانفرنس،کانگریس،عوامی اتحاد پارٹی،کشمیر اکنامک الائنس اور کشمیر ایڈیٹرس گائلڈ کے علاوہ فیڈریشن آف اردو ورکنگ جرنلسٹس نے لال سنگھ سے بیان کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔عمر عبداللہ نے چودھری لال سنگھ کے متنازع بیان کہ ’کشمیری صحافی شجاعت بخاری کے قتل سے سبق سیکھ لیں‘ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غنڈے اب سید شجاعت بخاری کے قتل کو صحافیوں کو ڈرانے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’ڈیئر جرنلسٹس، کشمیر میں آپ کے ساتھیوں کو بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی نے دھمکی دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شجاعت کی ہلاکت اب غنڈوں کے لئے ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو وہ صحافیوں کو ڈرانے کے لئے استعمال کررہے ہیں‘۔ عمر عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے لال سنگھ کے متنازع بیان کی مذمت کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ’نیشنل کانفرنس چودھری لال سنگھ کی جانب سے کشمیری صحافیوں کے لئے دیے گئے اشتعال انگیز بیان اور دھمکی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ جموں وکشمیر پولیس کو اس دھمکی کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ قانون اپنا کام کرے گا‘۔ کشمیر ایڈیٹرس گائلڈ نے چودھری لال سنگھ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان یہ اشارہ دے رہا ہے کہ انہیں شجاعت کے قتل کے بارے میں کچھ معلومات ہیں،جس کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔ صحافیوں کو دھمکی دینے پر کانگریس کی یوتھ ونگ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھاجپا سے لال سنگھ کی دھمکی کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا۔پارٹی کے یوتھ جنرل سیکریٹری شیخ عامر رسول نے چودھری لال سنگھ کے اُس بیان کی مذمت کی جس میں انہوں نے کشمیری صحافیوں کو دھمکی دی ۔انہوں نے لال سنگھ کو فرقہ ہم آہنگی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا ۔کشمیر اکنامک الائنس نے صحافیوں کو دھمکانے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لال سنگھ کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ الائنس کے فاروق احمد ڈار نے اس بیان کو تنگ و فرقہ پرست ذہنیت کی عکاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے چوتھے ستون مانے جانے والے صحافت کے ڈھانچے کو منہدم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انجینئر رشیدنے کشمیری صحافیوںکو شرمناک دھمکی دینے پر لال سنگھ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر نے فرقہ وارانہ اور مجرمانہ طاقتوں کی گندی ذہنیت کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے بے نقاب کیا ہے۔ انجینئر رشید نے کہا کہ ایک ممبر ا سمبلی ، جو سینئر وزیر بھی رہے ہوں،کی جانب سے صحافیوں کو دھمکی دینا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا لہٰذا سرکاری انتظامیہ کو انکے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انکے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا چاہے۔انجینئر رشید نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے لال سنگھ یہ جانتے ہوں کہ شجاعت کو کیوں ،کیسے اور کس نے قتل کیا ہے۔فیڈریشن آف اردو ورکنگ جرنلسٹس نے لال سنگھ کے بیان کو ذہنی و نفسیاتی فریسٹیشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری صحافی انکی دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ہے،بلکہ انہوں نے جن حالات میں کام کر کے صحافت کی قندیل کو روشن کیا،وہ صحافتی میدان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے پریس کونسل آف انڈیا کو چودھری لال سنگھ کے بیان کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔