کسی زیرک شخص نے کہا ہے کہ ’’جب کبھی بھی دنیا میں خون خرابہ ہوا تو اس کی وجوہات میں سے ایک اہم اور بنیادی وجہ انسانیت کے رشتے سے انسان کی دوری تھی اور جب کبھی انسانیت کے اس رشتے کی کمزوریوں کو دور کرنے اور اس کو مضبوطی عطا کرنے کے لیے لوگ اُٹھے تو دنیا کا ایک بڑا حصہ انسانیت سے سرشار ہو کر اس کے محافظ بن کر بنی نوع انسان کے لیے ایک نمونہ بن گئے۔‘‘ عصر حاضر کی درد وکراہ سے بھری قوموں کی داستانوں میں کئی ایسی داستانیں وجود میں آچکی ہیں کہ انسان انسانیت سے شرمسار ہوا چاہتا ہے لیکن اسے اپنی اَنا اور انسانیت کے اسی رشتے کی اصل فکر نہ ہونے کے سبب ہر چہار جانب خون خرابہ ہی پسند ہے۔ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں آج خون خرابہ نہ ہو رہا ہو؟ ہر مقام، ہر ملک ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے، ایک دوسرے کو نیچا کرنے کے لیے، ایک دوسرے پر طاقت کا بے جامظاہرہ کرکے اپنی ظاہری طاقت کا سہارا لے کر کمزوروں، مظلوموں اور نہتوں پر غیر انسانی اور غیر اخلاقی طور پر مسلط ہونے کے لیے بنی نوع انسان کا خون بہارہا ہے۔ انسانی خون اس قدر سستا ہو چکا ہے کہ کسی کو بحیثیت انسان اس کے بہنے پر افسوس بھی نہیں ہوتا بلکہ قوم پرستی اور مفاداتی پوجا پاٹھ کی مہلک بیماری نے آج انسانوں میں اس خون خرابہ کو ہی بہادری اور زیرکی کا تقاضا قرار دیا ہے۔ عام انسان نہ سہی البتہ وہ طبقے جو کسی نہ کسی حیثیت سے ’’بڑے لوگوں‘‘ میں شمار کئے جاتے ہیں، آج قومیت کی بیماری نے ان میں اس قدربدترین سوچ پیدا کی ہے کہ وہ بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’اتنی تعداد میں لوگوں کو قتل کرنے پر قوم کو مبارک ہو۔‘‘ … ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی وریندر سہواگ کے ایک حالیہ ٹویٹ میںرواں سال کے دوران وردی پوشوں کی جانب سے دو سو عسکریت پسندوں کو جاں بحق کرنے پر مبارک بادی کے پیغام نے ذی حس انسانوں میں لاکھ سوالات پیدا کیے ہیں کہ یہ کیسی بیمارذہنی اور کیسی دیش بھگتی ہے جو انسانی لاشیں گرنے پر شادیانے مناتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارک بادی پیش کا سجھاؤ دیتی ہے، حالانکہ مہذب دنیا میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی کسی انسانی جان کے زیاں پر خوشی کا اظہار کرے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا کہلوانے سے کوئی بڑا نہیں ہوتا بلکہ اپنے کلام، عادات واطوار، اور اخلاق سے انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ کون کتنا انسانیت نواز ہے اس کا پرتو انسان کی زبان ہی سے نہیں بلکہ اس کے چلنے پھرنے، ایک دوسرے کے احترام وعزت کرنے سے واضح ہو جاتا ہے جب کہ خون خرابے اورتخریب کی آندھیوں پر کسی کو مر حبا کہنا یا کسی کی داد دینا بذات خود ایک قاتلانہ سوچ ہی قرار پاتی ہے ۔
بہر حال موجودہ دور میں من جملہ اقوام عالم میں انسانیت کاتقدس پامال ہوتا جارہاہے، بہر کیف انسانیت اگرچہ دنیا سے ابھی ختم نہیں ہوئی ، البتہ ہر گزرتے لمحے میں کانفلکٹ زونوں میں اس کا مسلسل کھو جانا بھی کوئی کم درجہ اذیت ناک امر نہیں۔ کمزور قوموں کی تباہی وبربادی کی وجوہات کا تجزیہ کیجئے تو ان کے پیچھے ایک ہی بڑا کارن نظر آئے گا کہ دنیا کی سب سے بڑی انمول شئے یعنی انساینت وقت کے جابروں اور ظالموں کی خون خواری کے سبب شرقاً وغرباً ناپید ونابود ہے۔ اسی بنا پر دست ہائے جفاکیش نوعِ انسانی کی تکا بوٹی کر رہے ہیں ، زور آور کمزوروں کو صفحہ ٔ ہستی سے حرف ِ غلط کی طرح مٹا رہے ہیں ، اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لئے بڑی طاقتیں اخلاقیات کی گردن مروڑے پھر رہے ہیں۔ آپ چاہے مذہبی تاریخ کا مطالعہ کریں یا سماجی وسیاسی محاذوں پر لڑائیوں کی تاریخ کی ورق گردانی کر یں، ان سب میں جو چیز قدر مشترک کے طور پائی جاتی ہے وہ قوم پرستی اور انانیت کا بھوت۔ قوم پرستی وانانیت کے اس بھوت نے ہمیشہ انسان کو انسانیت کے اعلیٰ قدروںسے گرا کر حیوانیت کے دلدل میں دھکیل دیا ۔ قوموں کے عروج وزوال یا اُتار چڑھائو میں یہ جنون صاف نظر آتا ہے کہ مستقبل میں اپنے قوم کی ترقی و کامیابی کے لیے آج ’’قوم پرستی ‘‘ کو ایک تیز دھار ہتھیار بناؤ اور ہر نیکی ، ہر اچھائی ، ہر اصول کو تہ تیغ کر واور جنگل راج جیسی زندگی اپناؤ تاکہ آپ کا دبدبہ تہذیب و سیاست کے خم خانے میں قیامت تک جمارہے ۔ آج کی تاریخ میں یہ وحشیانہ قوم پرستی کا بھوت اس قدر ذہنوں پر سوار ہو چکا ہے کہ کسی کو انسانیت کے بہتے خون کی فکر ہی نہیں ، جن ہاتھوں سے لوگوں کا خون بہتا ہے وہ سورماء کہلاتے ہیں، دیش بھگت پکارے جاتے ہیں اور کوئی یہ سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ بھلا وہ کیوں اس عمل بد اور حیوانیت میں براہ ارست یا بلواسطہ ملوث ہو کیونکہ اس بیمار ذہنی میں مبتلا ہر شخص اس زعم ِباطل میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس بہیمانہ طرز فکر وعمل سے قوم کا ہی فائدہ ہو گا،اپنی قوم، دیش ، ملک اور نسل کا نام اونچا رہے گا ،باقی رہی انسانیت ، وہ چاہے مرے یا جئے،ا ن کی بلا سے، اُن کا اس سوال سے کوئی سروکار نہیںہوتا ہے۔
المختصر یوں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں بہ حیثیت مجموعی انسان کا انسانیت سے اٹوٹ رشتہ لگ بھگ ختم ہو چکا ہے، اس رشتے کو بچانے کی فکر میںآج کوئی کھڑا نہیں ہے اور اگر دنیا میں اسی وحشیانہ سوچ کے لوگ ہر دیش اور قوم میں تیار ہوتے گئے تو ایک دن ضرور ایسا آنے والا ہے جب دنیائے انسانیت میں انسان نہیں بلکہ شکل کے انسان اور عقل کے حیوان پائے جائیں گے۔ یاد رکھئے کہ انسانیت ہی انسان کی اصل پہچان اور شناخت ہے اور جب کبھی انسان کو انسانیت سے دور کیا جائے تو اس میں صرف ایک چیز رہ جاتی ہے اور وہ ہے حیوانیت و شیطانیت، فساد وعناد، جھوٹ اور مکرو فریب۔ بے شک ظاہر بین نظروں میں انسانی شکل والا انسان ہی کہلائے گا، البتہ اس کا چلنا پھر نا، اس کا اٹھنا بیٹھنا، اس کا سوچنا سمجھنا ، اس کااپنوں اور دوسروں کے ساتھ رویہ اختیا کر نا، یہ سب کچھ انسانیت اور اخلاقی مہک سے بالکل خالی ہو گا، وہ جہاں سے بھی گزرے گا جانوروں کی طرح صرف اپنی بھوک اور ہوس کی بھوک مٹانے کے فراق میں ہوگا۔ دراصل اس کی سوچ اور طریقہ ٔحیات انسانی رشتے کی عطر بیزی سے دورومہجور ہوگی۔
بہرحال پوری دنیائے انسانیت میں آدمیت کی ابتری کی بات کریں تو ایک کتاب نہیں بلکہ ایک کتب خانے پر مشتمل وسیع وعریض داستانِ خونچکاں تحریر کی جا سکتی ہے کہ کس طرح انسانیت کی مٹی عالمی اور علاقائی غنڈوں کے ہاتھوں خون آشامیوں سے پلید کی جارہی ہے اور انسانی جذبات کی تذلیل وتحقیر ہورہی ہے ۔ تاہم اس اصول کو کہ ’’پہلے اپنے آپ کو اور پھر آس پڑوس کودیکھو‘‘ کے تحت ہم اپنی سرزمین کی ہی بات کریں گے۔ جموں وکشمیر مسلم دنیا کا ایک اہم اور مشہور ومعروف حصہ ہے، یہاں کی ایک کثیر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تاہم غیر مسلم اقلیت جن میں پنڈت، سکھ، عیسائی، بودھ وغیرہ بھی یہاں صدیوں سے اکثریت کے ساتھ اُخوت کے رشتوں میں بندھے رہتے چلے آ رہے ہیںاور ان کے ساتھ یہاں کی مسلم آبادی نے ہمیشہ اسلامی اخلاقیات کے تحت برادرانہ تعلقات قائم رکھے ہیں۔ حالانکہ کئی شاطرانہ سازشی دماغوں نے بار بار ان کے اس رشتے میں کمزوریاں پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کیں لیکن ہر بار انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ البتہ جب کبھی بھی اس رشتے میں کمزوریاں اور دراڑیں ڈالتے ہوئے نفرت اور خوف و انتقام کا ماحول پیدا کیا گیا تو اس کے نتائج بھیانک برآمد ہوئے ۔ یہ اس رشتے کو کمزور کرنے والو ں کی زہر ناک سازشیں ہی ہیں کہ انسانیت آج بھی ان پر ماتم کناں ہے ۔یہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو اکثر و بیشتر اکثریتی مسلم طبقے سے بدظن کرنے کی نامراد کوششیں ہوتی ر ہیں، اُن میں پھوٹ ڈالنے کے لیے کئی سازشیں وقتی طور بارآور بھی ثابت ہوئیں ، البتہ شکر کامقام ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے کبھی بھی اقلیتی طبقات کے لیے اپنے دلوں میں کدورت پیدا نہیں ہونے دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ وقت کے کئی ایک بدنام زماں سیاسی بازی گروں نے’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کے ان آزمودہ حربوں سے عوام الناس کو اندھا بہرہ بنانے اور گمراہ کر نے کی لاکھ کوششیں کیں اور انسانیت کے اس دائمی رشتے کو کمزور کرنے کی بھونڈی چالیں بھی چلیں بلکہ آج بھی اس زہر یلی سوچ کے حامل مفاد پرست سیاست کار وحکمران یہاں کے زمینی حقائق کے علی الرغم اپنی سازشی ذہنیت سے کام کئے چلے جا رہے ہیں مگر ان کو ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑ رہاہے کیونکہ خرابی ٔ بسیار کے باوجود کشمیر کا مسلمان ان سازشی مہروں کا فہم وادارک ہی نہیں رکھتا بلکہ اسلامی تعلیمات پر کاربند ہو کر انسانیت کو پروان چڑھانے کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ بہر کیف ان سازشی مہروں میں کوئی ہمارا اپنا بننے کا ناٹک کر کے دشمن کے ساتھ مل کر پیٹھ پیچھے ہم پر وار کروا رہاہے اور کوئی تکلفات کے تمام پردے چاک کر کے کھلم کھلا اکثر یتی مسلم آبادی کی کردار کشی کر نے اور اسے تہ تیغ کرنے پر میدان میں تیرو تفنگ سمیت کھڑاہے۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ریاست میں حالات ابتر ہیں، یہاں جابجا جنگی صورتحال پائی جاتی ہے۔ اس مخدوش صورتحال میں جب کوئی پولیس والا یا فوجی مارا جاتا ہے تو کیا اس میں انسانی دل رکھنے والوں کے لیے خوشی کی کوئی بات ہے…؟ نہیں قطعی نہیں ۔ کوئی عسکریت پسندجاں بحق کردیا جاتا ہے یاعام شہری جرم بے گناہی کی پاداش میں قتل کیا جاتاہے ، تو کیا اس سب میں خوشی یا شادیانے منانا اچھی بات ہے…؟ ہر گز ہر گز نہیں! انسانی زندگیاں محترم ہوتی ہیں، بڑی قیمتی ہوتی ہیں اور دنیا کا ہر قانون انسانی زندگی کے احترام اور تحفظ کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ایسی سوچ پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ۲۰۰؍ عسکریت پسندوں کو جان بحق کرنے پر ہمارے کرم فرما خوشیاں منارہے ہیں…؟وریندر سہواگ جیسے بیمار سوچ کے حاملین کی خفتہ ضمیری پر کیا کہئے ؟اس طرح کی سوچ کو بہرحال ایک منفی اور لایعنی ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس طرح کی سوچ کا پروان چڑھنا ہی یہ بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ جمہوریت اور بشری حقو ق کی صورت حال یہاں کتنی پتلی ہے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’دنیا میں انسان انسان بن کر رہے ،اس کے بغیر یہاں انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں، کیوں کہ انسان انسانیت کی خوشبو سے معطر ہو کر انسانیت کے لیے خوشی کا پیغام ہے اور اگر یہی انسان انسان بن کر زندگی نہ گزارے تو خوشبو کی جگہ اس دنیا کو بدبو آگھیر لے گی اور بدبو انسانیت کے خاتمہ کا اعلان ہے۔ ‘‘
مسئلہ کشمیر جسے تمام لوگوں کو ایک انسانی مسئلہ کے طور پر لینا چاہیے، کسی کو یہاں کے انسانوں کے پیدائشی اور جائز حق پر شب خون مارنا اور اس حق سے بے دخل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ جو لوگ آج کی دنیا میں انسانیت کے لیے کام کرنے کے بڑے بڑے اعلانات کرتے پھرتے ہیں ، اُنہیں اول وآخرجموں و کشمیرکے حل طلب مسئلے کو انسانیت کے دائروں میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ انسانیت کی باتیں کرنا اچھی علامت ہے لیکن انسانیت کیا ہے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے کیا کرنا چاہیے، اس پر مقتدر افراد اور اداروں کو ایک بار پھر ذرا غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر وہ حقیقت میں انسانی حقوق کی پاسدار ہیں تو انہیں جہاں کہیں بھی جائز انسانی مسائل نظر آئیں وہ ان کو حل کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ورنہ عام لوگوں کاان انسانیت نواز اداروں پر سے بھروسہ ہی اٹھ جائے گا جیساکہ ہم کشمیر کی حد تک دیکھ بھی رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ جسے قائم ہی اس لیے کیا گیا کہ یہ تمام انسانی مسائل کا حل نکالنے کی حتی المقدور کوششیں کرے گا لیکن آج اس کی افادیت مسلم مسائل کے حوالے سے خاص طور صفر کے برابر ہے ۔ ارضی صورت حال کے تعلق سے دیکھاجائے تو اس ادارے کے یہاں صرف انسانیت نوازی کی باتیں ہی رہ گئی ہیں، باقی انسانیت کے لیے کام کرنا اس نے نہ صرف کب کا چھوڑ دیا ہے بلکہ یہ عالمی جابرین کا دُم چھلا بن چکا ہے ۔اس لئے وہ دن زیادہ دور نہیں لگتاجب کئی ایک ممالک اس ادارے کی جانب داری سے تنگ آکراس سے اپنے پلو جھاڑ یں ۔بہر حال فی الوقت جموں و کشمیر کی صورت حال اس قدر گھمبیر ہوتی جا رہی ہے کہ ایک طرف حکومت عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے ’’آپریشن آل آئوٹ‘‘ کے نام سے قر یہ قریہ جنگ کے نام پر خون بہا رہی ہے اور دوسری جانب کہہ رہی ہے کہ کسی عسکری کو مارنا ہماری کامیابی نہیں۔ یہ عجیب طرح کا تضاد ہے ۔بایں ہمہ یہ بھارت کے لیے کوئی خوش خبری نہیں کہ رواں سال کے دوران ۲۰۰؍ کے قریب عسکریت پسندوں کو مارا جا چکا ہے بلکہ ذی حس اور دوربین نگاہ رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ جتنا پیٹرول پر پانی چھڑکا جائے، اتنا ہی پیٹرول سے آگ تیز ہونے کی توقع ہے۔ آج کشمیر کے طول وعرض میں یہی صورت حال پائی جاتی ہے۔ اصولی طور لوگوں کو مارنا مسئلے کا حل نہیں ہے، اگر یہ حل ہوتا تو گزشتہ تیس برسوں کے دوران ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر نہیں ہوتے۔ ایسی صورت حال پر بھارت کے ذی حس طبقہ جنہیں انسانیت کی فکر ہو اور جو انسانیت کی بقاء کے لیے کام کر رہے ہیں، کو غور وخوض کرنا چاہیے۔ قبل اس کے کہ پورا برصغیر نہ چاہتے ہوئے بھی کسی خطرناک مہم پسندی میں الجھ جائے ، عقل مندی اور فہم وفراست اسی میں ہے کہ خون خرابے کو رکوانے کی خاطر اصل مسئلہ کو منصفانہ انداز میں سمجھا جائے اور اس کے قابل قبول حل کے لیے سنجیدہ اور ثمر بار کوششوں کا آغاز کیا جائے۔
رابطہ نمبر9419086715