پروفیسر محمد اسداللہ وانی
میںجس عمارت کے گراونڈ فلور کے فلیٹ میں رہتا تھااس سے تھوڑے سے فاصلے پرایسی ہی ایک اورعمارت تھی ۔ان دوعمارتوں کے درمیان پانی کی ایک بہت بڑی ٹینکی تھی جس سے مختلف فلیٹس کے لیے بجلی کے ذریعے پانی فراہم ہوتا تھا۔کبھی کبھار آس پاس کے ضرورت مند بھی اس ٹینکی کے نل سے پانی بھر کر لے جایا کرتے تھے لیکن علی الصباح اس ٹینکی کے نل سے دودھ بیچنے والے جی بھر کراپنے اپنے برتنوں میں پانی بھر بھرکرلے جاتے اورتھوڑی دوری پررکھے دودھ کے برتنوں میںپانی ڈالتے اور پھراپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر دودھ کے گاڑھے پن کی تسلی کرتے اوراس کے بعد اپنے اپنے گاہکوں کے گھروں کی جانب چل دیتے ۔ چونکہ میرے فلیٹ کے ایک کمرے کی کھڑکی ٹینکی کی طرف کھلتی تھی اس لیے اس فلیٹ میں اپنی رہائش کے ابتدائی ایام میںیہ منظر میرے لیے حیرت انگیز تھا،اس لیے بھی کہ ہم اپنے گھروں میں دودھ گھی میں ملاوٹ کرنا جرم سمجھتے تھے ۔کچھ عرصہ کے بعد میں یہ نظارہ دیکھنے کاعادی ہوگیالیکن اپنے لیے میں دودھ میں پانی نہ ملانے والوں کی آج تک تلاش وجستجو کرتا رہا ہوں۔
ایک دن میں نے اپنے پڑوسی پروفیسر سکھدیو سنگھ کو کسی سے پنجابی میں بات کرتے ہوئے سنا۔میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھاتو پروفیسر موصوف محلے کے ایک بزرگ سے مخاطب تھے جوٹینکی کے نل سے دودھ کے ڈبے میں اپنے چلو سے پانی ڈال رہے تھے۔
شرما صاحب !یہ دودھ کے ڈبے میں پانی کیوں ڈال رہے ہو ؟
پروفیسر صاحب کیا کہوں ؟یہ سارے بے شرم ہیں ،دودھ بیچنے والے بھی اور(لاگ لگوانے) خریدنے والے بھی،شرما جی نے کہا۔
کیوں شرما صاحب کیا ہوا؟
شرما صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔میں صبح سویرے سیر کے لیے نکلتا ہوں،راستے میں ایک ڈیری پڑتی ہے،سوچا کیوں نہ واپسی پر ڈیری سے دودھ بھی لیتا آیا کروں گا۔ اس لیے دودھ کا ڈول بھی ساتھ لیتا ہوں۔ جب ڈیری والے برتن میں دودھ اُنڈیلتے ہیں تو وہ جھاگ کی وجہ سے پورا بلکہ زیادہ بھراہوامعلوم ہوتا ہے مگر جب گھر پہنچتا ہوںتوتب تک جھاگ بیٹھ جاتی ہے اور دودھ کم ہوتا ہے جس پر گھر والے کہتے ہیں کہ دودھ کم کیوں لایا ؟
پروفیسر صاحب! اب آپ ہی بتایئے اس بڑھاپے میں اپنی لاج رکھنے کے لیے یہ نہ کروں تواورکیا کروں ۔ دودھ والاجوپانی ملا کر گھرمیںدودھ پہنچاتاہے اُس سے یہ میرا لایا ہوادودھ تو پھر بھی بہترہی ہوتاہے اور ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔پھراس طرح سے اپنی لاج بھی رہ جاتی ہے۔
���
جموں، موبائل نمبر؛9419194261