سرینگر// تہار جیل میں مقید قیدیوں کے لواحقین کا ایک وفدحریت (ع) چیرمین سید علی گیلانی سے حیدرپورہ میں ملاقی ہوا اور انہوں نے گیلانی کو قیدیوں کی حالت زار سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے کہا کہ21 نومبر رات کے 9بجے کے قریب تہاڑ جیل میں تعینات تامل ناڈو سیکورٹی پولیس نے معمول کی گشت اور تلاشی کے دوران جیل نمبر ایک کے بلاک cمیں داخل ہوئے توانھوں نے ایک قیدی کے پاس ایک تکیہ دیکھا ۔یہ تکیہ اس قیدی نے ڈاکٹری مشورے کی بنیاد پراورعدالتی کاروائی کے دوران جج سے اجازت حاصل کرکے اپنی تحویل میں رکھا تھا۔اس دوران اس تکیہ کی موجودگی کو لے کر گشت پر مامور سپاہیوں اور قیدی کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوئی،جس سے حالات کشیدہ ہوئے۔اس دوران سپاہی بارکوں میں داخل ہوئے اور قیدیوںپر پانی کی بوچھاڑ کی ،جس سے ان کے کپڑے اور بستر وغیرہ پانی سے گیلے ہوئے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ سپاہیوں نے بارک میں موجود18 قیدیوں کو شدید زدکوب کیا۔ان مضروب محبوسین میں 17مسلمان ہیں اور ایک ہندو قیدی بھی ہے ۔قیدیوں میں غلام محمد بٹ ،سید شاہد یوسف،مشتاق احمد ،غلام جیلانی،جاوید احمد،احتشام احمدشامل ہیں ،کی شدید مارپیٹ کی گئی اور قابل ذکر یہ ہے کہ عملے نے ان سب قیدیوں کی مارپیٹ کے دوران اکثر کے سر کو اپنی تفتیش اور مارپیٹ کا نشانہ بنایا،جبکہ کچھ قیدیوں نے اگرچہ کسی نہ کسی طرح اپنے سر کو بچالیا لیکن ان کے بازوں ،ٹانگوں،کمر اور شانے پر لگے مارپیٹ کے نشان اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انہیں وحشیانہ طریقے سے ذدوکوب کیا گیا ہے۔ وفد نے مزید کہا کہ محبوسین رات بھر خوف ،زخموں سے رس رہے خون اور بستر گیلا ہونے کی وجہ سے سو نہ سکے ۔اگرچہ انہوں نے اپنے بچائو کی خاطر سائرن بھی بجالئے لیکن کوئی ان کی خبر گیری یا بچائو کے لئے نہیں آیا۔اس کے برعکس QRTنامی پولیس نے انہیں کوئی امداد پہنچانے کے بجائے ان کی بیرکس میں داخل ہوکر ایک بار پھر ان کی مارپیٹ شروع کی ۔ اس صورت حال کے پیش نظر سبھی قیدی اور بالخصوص وہ جن کی مارپیٹ کی گئی ہے ،مسلسل خوف کے عالم میںہیںاور اگر یہی صورت حال قائم رہی تو اس سے ان کی ذہنی قوٰی اور صحت متاثر ہونے کا قوی احتمال ہے۔ اس موقع پر گیلانی نے وفد کو یقین دلایا کہ اس ظلم کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے تہاڑ جیل کے علاوہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں بند کشمیری قیدیوں کو فوری طور پر سرینگر واپس لانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جانا نہ صرف بین الاقوامی قوانین، بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے اور مہذب سماج میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔