حال ہی میں کھٹوعہ جموں اور قصور پاکستان میں یکے بعد دیگرے دو ایسے دلدوز واقعات رونما ہوئے جن سے انسانیت شرمسار ہوئی، ہر ذی روح انسان تڑپ اُٹھا، صاحبانِ ضمیر ماتم کناں ہوئے۔ پاکستان کی زینب اور کھٹوعہ کی آصفہ سے پیش آمدہ سانحات ہمارے معاشرے کے وہ بدنما داغ ہیں کہ جن سے دروکرب کی ٹیسیں قرنوں اٹھیں گی۔ میں کئی روز سے ان معصوم کلیوں پر لکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن کامیاب نہ ہواکہ قلب رنج و کلفت میں ڈوبا رہا اور قلم کی زبان گنگ تھی۔ زینب اور آصفہ کو یاد کرتے کرتے میرے آنکھوں کے سامنے اپنی بچی اور بھانجی یاد آگئیں، میں سوچ رہا تھا کہ جب ان معصوم بچیوں کو درندوں نے مسلا ہوگا تو ان پر کیا بیتی ہوگی، انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کیسی کوشش کی ہوگی، ان کے تڑپتے ہوئے یہ مناظر آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لا رہے تھے۔ سوچ رہا تھاکہ جب درندوں نے ان پھولوں کی جان لی ہوگی اس وقت ان پر کیا بیتی ہوگی، کیا انسان اس قدر ظالم ہوسکتا ہے، کیا کوئی اس قدر سنگ دل ہوسکتا ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک پاکستان میں 7؍ سالہ زینب کے واقعہ پر ردعمل ہوا، سول سوسائٹی، میڈیا، سوشل میڈیا، ادارے اور تنظیموں نے سیاسی وابستگی کو بالائی طاق رکھا، اس پر زور مہم کے نتیجے میں معاشرہ میں گناہ کے تئیں نفرت دیکھنے میں ملی اور حکومت نے قاتل کو گرفتار بھی کیا، اس کے برعکس صوبہ جموں کے کٹھوعہ ضلع میں 8 سالہ آصفہ کے تئیں وہ ردعمل دیکھنے کو نہ ملا جو زندہ معاشرہ کی علامت ہوتا ہے، اپوزیشن نے ایک بار اسمبلی میں مسئلہ اٹھانے پر اکتفا کیا، اخبارات میں لگاتار مضامین شائع نہ ہوئے، حد یہ ہے کہ گیلانی صاحب کا بیان بھی بہت تاخیر سے آیا،حریت نے بیان سے آگے کوئی لائحہ عمل نہ دیا، حالانکہ آصفہ کا تعلق اس علاقے سے ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اور اس کا تعلق گوجر طبقہ سے ہے ۔ اخباری بیانات کے مطابق یہ طبقہ ہمیشہ اکثریت کے ظلم و جبر اور استحصال کا شکار رہا ہے، بعض شرپسند عناصر جن کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، نے دورافتادہ اور بے سروسامان مسلم اقلیت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے ( المیہ کہنا ٹھیک ہوگا )کے خلاف زور دار مہم چلانے کی ضرورت تھی، اور مختلف سیاسی پارٹیوں کو جماعتی ا ور گروہی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر اس انسانی مسئلہ کے لیے مل جل کر مہم چلانے کی ضرورت تھی، اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوشش ہونی چاہیے تھی مگر معاملہ چند ہی لمحوں میں ٹھنداپڑا ۔ تادم تحریر صرف یہ خبر آئی ہے کہ پولیس نے ہیرانگر جیل کے ایک باوردی ہندواسپیشل پولیس آفسر( ایس پی او) دیپک کجھوریہ کو پکڑ لیا ہے جس پر آصفہ کی آبرو ریزی اور قتل عمد کا الزام مبینہ طور قبول کیاہے۔ کہا جاتاہے کہ مقتولہ آصفہ کو تلاش کرنے والی ہیرانگر پولیس اسٹیشن کی سرچ پارٹی میں ملزم دیپک بھی شامل تھا بلکہ خبر یہ بھی ہے کہ جب آصفہ کی ٹریجڈی کو نعروں اور آہوں سے اُجاگر کرتے ہوئے اس کے سگے سمنبدھی انصاف کی دہائیاں دے رہے تھے تو ان پر پولیس کے دنڈے برسانے والوں میں یہ سنگ دل قاتل بھی پیش پیش تھا ۔ اب دیکھئے کہ یہ ننگِ انسانیت کیس کیا رنگ پکڑلیتا ہے۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ کہیں اس کا حشر بھی آسیہ اور نیلوفر جیسا نہ کیا جائے ۔ پاکستان میں زینب کے قاتل اور انسانیت کے مجرم کو پھانسی دینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے مگر یہاں کا باواآدم ہی چونکہ سیاست کا پروردہ ہے ،اس لئے پتہ نہیں کہ آصفہ کو انصاف ملے گا یا شوپیان کی الم ناک تاریخ دہرائی جائے گی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال کافی عرصہ سے ہو تا چلارہا ہے ْاس کی مثالیں اتنی اندوہناک اور شرم ناک ہیں کہ ضبط تحریر میں نہیں لائی جاسکتیں ۔ ابھی حال ہی میں ممبئی فلمی نگری کے ایک بوڑھے فلم سٹار پرا پنے ہی کزن نے"me too" مہم کے تحت الزام عائد کیا کہ ا ٹھائیس سال کی عمر میں اس فلم سٹار نے رشتہ داری کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مجھے کم سنی میں اپنی جنسی بھوک کا نوالہ بنایا ۔ میں نے اتنے برسوں اپنے والدین سے یہ بات چھپائی کہ کہیں یہ سن کر ان کا دل نہ ٹوٹے ۔ اب چونکہ وہ سورگباش ہوئے ہیں تو میں نے انصاف طلبی میں عدالت کادروزہ کھٹکھٹایا۔ اس خاتون کو قبل ازوقت یہ فکر دامن گیر ہے کہ میں شاید ملزم کا بال بھی بیکا نہ کر پاؤں گی کیونکہ اپنے زمانے میں گلیمر کی دنیا کے اس بے تاج بادشاہ کے پاس بے تحاشہ دولت، بے پناہ سیاسی پشت پناہی اور عدالت پر اثرانداز ہونے کی طاقت ہے مگر میں انصاف کی جنگ لڑوں گی۔ جنس زدگی کی بے قابو ہوس جیسی لعنت پہلے مغربی معاشرے میں آندھی کی طرح چھائی تھی، اب یہ تیزی سے مشرقی معاشرے کو اپنے جال میں لا رہی ہے۔ بہر کیف اگر ہم نے اپنے ہوش وحواس پورے طور نہیں کھودئے ہیں اور نہ اپنے لخت ہائے جگر کے تئیں بے فکری کا پردہ آنکھوں پر بیٹھا ہوا ہے تو خون کے آنسو رلادینے والے یہ سانحات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس ظلم و بر بریت کے خلاف ہم بے فکری کی نیند نہ سوئیں بلکہ متحد ہوکر ان کے انسداد کی موثر و کارگر سبیلیں ڈھونڈیں،اس سلسلہ میں جہاں پوری قوم کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا، وہیں والدین کی بھی بچوں کے تئیں اسے اولین ذمہ داری سمجھنا اور سمجھانا بہت ضروری ہے۔
والدین کے لیے اگرچہ یہ ممکن نہیں کہ وہ ہر لمحہ اپنے بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں، یا ہر جگہ اور ہروقت درندوں کی اُٹھک بیٹھک کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنے ننھے منوں کا دفاع کریں لیکن اس کے باوجود وہ اس ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے کہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور زیادہ سے زیادہ ان کو اپنی نگرانی میں رکھیں۔ ان کو ایسی تعلیم وتربیت دیں جس سے وہ بہترین انسان بن سکیں، انہیںاتنا ہوشیار اور سمجھ دار بنائیں کہ کوئی شیطان انہیں بہلاپھسلا کر غلط رُخ پر نہ لے جاسکے، بدقسمتی سے مادیت کی دوڑ اور انٹرنیٹ کی مشغولیات نے والدین کو اتنا زیادہ مصروف کر رکھا ہے کہ وہ کم سے کم وقت ہی اپنوں کے ساتھ گزارپاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہاں بچیوں کے ساتھ اس قسم کے دلخراش واقعات رونما ہورہے ہیں، وہیں عورت ذات کے ساتھ بھی سماج کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک طرف مغرب جہاں آزادی کے نام پر عورت ذات کی بے عزتی کا ہر حربہ آزما رہاہے، وہیں ہمارے اپنے معاشرے میں بھی خواتین اپنے آپ کو محفوظ نہیں پاتیں۔ دفتر، اسکول، ٹیوشن سنٹرس، سر راہ خواتین کے ساتھ آئے دن ناشائستہ سلوک کی خبریں موصول ہو نا اس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ ہم گئے گزرے ہیں۔ اب صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزیدتشویش ناک ہوتی جارہی ہے۔ عورت کے تئیں نہ صرف جنسی زیادتی ہو رہی ہے، بلکہ ہمارے اپنے معاشرے میں کہیں شعوری اور لاشعوری کے عالم میں عورت کو عملاً دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جا رہا ہے۔ عورت کو اسلام نے ایک مکمل تشخص بھی دیاہے اور تحفظ بھی لیکن عملاً ہمارے معاشرے میں وہ اس سے محروم ہے۔ جہیز کے نام پر خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویہ، بڑی بڑی دعوت کے نام پر شادی کو مشکل بنانا، یہ سب ہمارے معاشرے میں عام سی چیزیں ہوگئی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہو کے ساتھ زیادتی، اپنی بیٹی اور بہو کے درمیان فرق کرناکچھ بھی معیوب نہیں رہا ہے۔ہمارے معاشرہ میں کتنے باشعور افرادہیں جواپنی لڑکیوں یا بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہیں؟ زمینی صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی اپنے مائیکہ والوں سے حق وراثت کا مطالبہ کر نے کی بھول کربیٹھے تواس کے ساتھ اپنے خونی رشتے یکسر تعلقات ختم کردئے جاتے ہیں۔ بعینہٖ طلاق غلط اور غیر شرعی طریقے سے دینے کی وجہ سے آج ان لوگوں کو اسلامی شریعت پر حملہ کرنے کا موقع ہم خود ہی فراہم کر رہے ہیں جو مسلمان کا وجود ختم کر نے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ لڑکی اگر خلع کا مطالبہ کرے اور لڑکا انکار کر دے تو کوئی بھی مفتی فسخ نہیں کراتا۔ بہر صورت اسلام کے فروغ میں خواتین کا رول آج کتنا باقی رہ گیا ہے؟ دین ناآشنا لوگوں نے اس میدان میں صنف نازک کو عضوئے معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ دور نبویؐ اور دور صحابہ ؓمیں خواتین کو وقار عطا کیا گیا، معاشرہ میں ان کا اپنا ایک منفرد کردار اور اپنی ایک مسلمہ پہچان تھی۔ سماجی، سیاسی، معاشرتی کاموں میں وہ اپنے دائرہ کار میں باپردہ ہوکر بیش قیمت خدمات انجام دیتی تھیں۔ بہت سی صحابیات ؓ کھیتوں اور گھروں میں کام کرتی تھیں۔ کچھ معلمی کا کام کرتی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو وہ گھبرائے ہوئے گھرتشریف لائے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ ؓکا حوصلہ یہ کہہ کر بڑھایا کہ اللہ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا، آپ سماج کے کمزور طبقات کے کام آتے ہیں۔ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ حدیبیہ میں ہی قربانی کرو، صحابہؓ پس وپیش میں پڑگئے، یہ اُم سلمیٰ ؓہی تھیں جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مشورہ دیا کہ آپؓ قربانی کیجئے یہ آپؐ کی اتباع میں خود ہی کرلیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلام میں لانے والی ایک خاتون ہی تھیں اور مہر کے معاملے میں ٹوکنے والی بھی ایک خاتون ہی تھیں۔ ام شفا ؓمارکیٹ انسپکٹرہ تھیں۔ جنگوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہنے والی بھی خواتین ہی تھیں۔ الغرض دین اسلام نے ان کو ہر معاملے میں involve کیا، آج ہمارے معاشرے میں عورتوں کو صیح مقام نہ دینے کی وجہ سے ہی وہ feminist تحریکات کی آسان شکار ہو رہی ہیں۔ اگر مسلم خواتین کو سماج میں ان کا مطلوبہ مر تبہ اور صحیح مقام دیا جائے گا تو ان کا وقار اور ان کا مقام خود ہی بلند ہوجائے گا، اور ان کے تحفظ کا معاملہ بھی بہت حد تک خود ہی حل ہوجائے گا۔ جب تک یہ نہ سب نہیں ہوتانہ جانے کتنی معصوم آصفاؤں اور زینبوں کو درندہ شیطانوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھنا ہوگا؟