جی ہاں! اس کا اصلی نام قُرۃ العین تھا، پر لوگ اُس کو پیار سے ’سندری‘ کے نام سے جانتے تھے۔ سُندری سراپا حُسن ہی نہیں بلکہ حُسن کی تکمیل تھی۔ اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اللہ نے اُس سے پوچھ کے اس کی تخلیق کی ہے! غیر کے سامنے وہ دفتعاً اپنا بھر پور سینہ ڈوپٹے کے نیچے چھپاتی تھی۔ وہ جب بات کرتی تھی تو اُس کے ہونٹوں پر گلاب کھلتے تھے۔ وہ حقیقی پیرائے میں قرۃ العین تھی۔ جو اس کو ایک بار دیکھتا تھا وہ پھر بار بار اس کو تکتا رہتا تھا۔ اُس کی جھیل جیسی آنکھیں دوسروں کی نگاہوں کو محصور کرتی تھیں۔ سندری کا باپ شفیع احمد پیشہ سے ایک شالباف تھا اور مثالی اوڑھنے شہ تُوس بنانے کا ایک اعلیٰ کاریگر تھا۔ اپنی بے مثال کاریگری سے اُس نے آسمانِ فن پر اپنا نام رقم کیا تھا۔ اعلیٰ پایہ کا کاریگر ہونے کے علاوہ وہ ایک شریف النفس اور لوگوں کا ہمدرد انسان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ اس کو عزت اور وقار کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ سُندری کی ماں زینب بھی اعلیٰ صفات کی مالکہ تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی انسانی اقدار کے پاسبان تھے۔ اسی ایوانِ فکر میں سُندری کی پرورش ہوئی تھی۔
سُندری کو بچپن سے ہی پینٹنگ کے ساتھ گہرا لگائو تھا۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد شفیع احمد نے اپنی لاڈلی بیٹی کے لئے شہر کے مصروف ترین بازار میں اپنے شو روم کے متصل ایک عالیشان پینٹنگ سٹیڈیو بنوایا۔ یہاں سُندری نہ صرف پینٹنگ تخلیق کرتی تھی بلکہ وہ یہاں اپنی پینٹنگ کی نمائش بھی کرتی تھی۔ کشمیر کی ثقافت سے گہرا لگائو ہونے کے ناطے شفیع احمد نے اس سٹیڈیو کا نام ’’شہتوس سٹیڈیو‘‘ رکھا تھا۔ شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں، ریستورانوں، ہائوس بوٹوں اور سرکاری و نیم سرکاری دربار ہالوں میں سُندری کے شہکار پیٹنگ کے نمونے دیکھنے کو ملتے تھے۔ دھیرے دھیرے سُندری نے نام کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کمانا شروع کیا اور شہتوس پینٹنگ گیلری ایک ٹریڈ مارک بن گیا۔ سُندری کی خداداد صلاحیت اور بے مثال حُسن کو دیکھ کر میں اس پر فریفتہ ہوچکا تھا۔ سیاہی چُوس کی مانند سندری نے میرے ہوش و حواس چُوس لئے تھے۔ میں سُندری کو اپنے حال سے واقف کرانا چاہتا تھا، جس کے لئے میں روز اس کے سٹیڈیو کا طواف کرتا تھا لیکن مجھے محسوس کرنے کے بجائے وہ مجھ سے آنکھیں پھیرتی تھی۔ نگاہیں موندھ لیتی تھی۔
’’تمہیں کیا چاہئے؟‘‘ ایک دن سندری نے مجھے انہماک سے پوچھا۔
’’میں مریض ہوں، مجھے دوائی چاہئے۔‘‘ میں نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
’’مریض طبیب کے پاس جاتا ہے، میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘ سُندری نے غصے میں جواب دیا۔
’’لیکن میرے مرض کی دوا تمہارے پاس ہے۔ میں تمہارا مریض ہوں۔ میں ۔۔۔ میں مریضِ عشق ہوں۔‘‘ میں نے عاجزی سے کہا۔
جواب سُنکر سُندری نے اپنا برش سُرخ رنگ میں ڈبو دیا اور فریم پر زور سے مارتے ہوئے کہا ’’جب طبیب خود مریض ہو، ناتواں ہو، کمزور ہو!‘‘
’’میں۔۔۔میں۔۔۔ میں سمجھا نہیں‘‘۔ میں نے کپکپاتے ہوئے کہا۔
’’ہا۔۔۔ہاں ہاں۔۔۔ واقعی میں قرۃ العین یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں لیکن بصارت سے محروم ہوں۔!!‘‘
جواب سُن کر میری پریشان نگاہیں ایزل پر بیٹھ گئیں، جہاں کینواس پر ایک شہکار تصویر سُندری اُبھر کر آئی تھی۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724