موجودہ دور کو سائنس اورٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے۔آج دنیا کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ایک طرف معاشرے میں مختلف ذرائع سے فحاشی اور بے حیائی کا جال بچھا کر نوجوانوں کے ساتھ ساتھ مسلمان ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کے قلوب و اذہان میں بے حجابی اور اور ذہنی آوارگی پیوست کرکے اسلامی معاشرہ کی بیخ کنی کی جاتی ہے اور دوسری طرف پڑھے لکھے مغربی تہذیب کے دلدادہ مغربی تہذیب و تمدن سے مرعوب ہوکر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے معاشرے میں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں بے حیائی اور بے شرمی نے اپنا جال نہ بچھا یا ہو۔
شیطان کا روزِ اول سے ہی مقصد رہا ہے کہ آدم ؑ اور اس کی اولاد کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری میں مبتلا کرے۔شیطان کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ جس کام کے لئے پیدا کئے گئے تھے انہیں اس فرض کی ادائیگی سے باز رکھا جائے اور دنیا کی لذتوں میں مبتلا کردیا جائے۔شیطان کا تیسرا حربہ اور کوشش یہ بھی ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کے عظیم ترین مقام سے گرا کرمحض درندوں ،حیوانوں یا دیگر مخلوقات کے درجہ پر پہنچا دیا جائے۔اس کا تذکرہ سورہ اعراف میں تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی قرآن میں جگہ جگہ انسان کو بے راہ روی پر لگانے کی شیطانی حربے کاتذکرہ آیا ہے۔آج معاشرے میں بے حیائی کا چلن عام ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب بے پردگی ہے جو سارے معاشرے میںمعمول کی چیزیں بن گئی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شرم و حیا جو عورت کے زیور سمجھے جاتے تھے اب ختم ہوکر رہے ہیں۔بقول شاعر ؎
سڑکوں پر ناچتی ہے کنیزیں بتول ؓکی
اور تالیاں بجاتی ہے اُمت رسولؐ کی
حضورﷺ کے آنے سے پہلے عرب میں بہت ساری برائیاں تھیں۔ایسے ماحول میںرب العالمین نے اپنے پیارے نبیﷺ کو اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے مبعوث فرمایا۔آپ ﷺ تشریف لائے تو عورت کے کھوئے ہوئے مقام کو بلند کیا اور ثابت کردیا کہ عورت بیٹی ہے تو ہماری عزت ہے،بہن ہے تو ہماری نامُوس ہے،بیوی ہے تو ہماری زندگی کی ساتھی ہے اور ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے۔آپ ﷺ نے عورت پر کئے جانے والے سارے ظلموں کو روک دیا اور عورت کو ایک بلند مرتبہ حاصل ہوامگر آج کل کی عورت نے تو خود اپنے آپ کو اس بلند مقام سے گرادیا اور یہاں تک گرا دیا کہ ایک سستی سے سستی صابن کی ٹکیہ پر عورت کی تصویر زینت بن کر نمایاں ہوتی ہے۔حضورﷺ کی پیدائش سے پہلے عرب میں ایسا کوئی ظلم نہیں تھا جو اس وقت ایک عورت کے ساتھ نہ کیاجاتا تھا۔میری بہنو!اگر آج ہم عزت سے جی رہے ہیں تو صرف اور صرف سرورِ کائنات ﷺ کی وجہ سے ،اگر وہ نہ آتے تو شاید اس کائنات میں وجود زن کا تصور ہی نہ ہوتا۔میری بہنوں ہم تو زندگی جی رہے ہیں مگر اس طریقے پر نہیں جو اسلام نے ہمیں سکھایا ہے۔اگر ہم آج کل کے معاشرے پر نظر ڈالئے تو ہر طرف بے حیائی ،بے شرمی اور بے پردگی عام ہے۔بے حیائی اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ ایک عورت پردے کو بوجھ سمجھنے لگی ہے اور پردے کی اہمیت کو ختم کرکے رکھا ہے۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے ؎
گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
پردے کی اہمیت آج کل شاید کوئی ہی عورت سمجھ سکتی ہے۔پردہ ایک ایسی نعمت ہے جو عورت کو عزت،وقار اور احترام کا حامل بنا دیتا ہے۔اسلام میں پردے کی سخت تلقین کی گئی ہے۔اگر کوئی شخص اپنے دور کا مجدد الف ثانیؒ بن سکتا ہے تو اسلام ایک عورت کو رابعہ بصری ؒاور زینب الغزالی کا روپ اختیار کرنے سے ہرگز نہیں روکتا ہے۔اسلام نے عورت کوعزت دی ،آزادی دی ،بلند مرتبہ دیا لیکن ایک عورت ان سب مقاموں کو پاکر خود کوگرانا چاہتی ہے اور اسلام جیسا سچا اور پاک دین پاکر اس کو اپنانے کے بجائے اس سے دور بھاگتی ہے اور مغربیت کے طرز کو اپنانے میں لگی رہتی ہے۔بے حیائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک لڑکی لڑکی کم اور لڑکا زیادہ دکھتی ہے ؎
وحشت میںہر نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
دور حاضر میں مشرقی خواتین مغربیت کے طرزعمل کو اپنانے میں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔زمین اس وقت ہلنے لگتی ہے ،آسمان پھٹنے لگتا ہے،فرشتے رونے لگتے ہیں ،ہر باضمیر کا دل تھرانے لگتا ہے ،کلیجہ پھٹنے لگتا ہے جس وقت ہماری قوم کی بیٹیاں ائیر ہوسٹس ،ایک فلم اسٹار، ماڈل ،مس یونیورس وغیرہ بننے کے لئے اپنی عزت و وقار کوداؤ پر لگانے کے لئے پیش پیش رہتی ہیں۔آخر پر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتی ہوں کہ وہ امت مسلمہ کی بیٹیوں کو پردے میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا اورآخرت میںکامیابی و کامرانی سے نواز دے۔ (آمین)