اظہار خیال
نریندر مودی
ایک صدی قبل، وِجیہ دشمی کے عظیم تہوار پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہ ہزاروں سالوں سے چلی آ رہی اس روایت کی بحالی تھی، جس میں قوم کا شعور وقتاً فوقتاً اپنے عہد کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے نئی نئی شکلوں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس دور میں آر ایس ایس اسی قدیم قومی شعور کا مقدس اوتار ہے۔ یہ ہماری نسل کے سویم سیوکوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں آر ایس ایس کے صد سالہ جشن کا ایسا عظیم موقع دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں اس موقع پر قوم کی خدمت کے عہد کو اپنی زندگی کے مرکز میں رکھنے والے لاکھوں سویم سیوکوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں آر ایس ایس کے بانی، ہم سب کے مثالی… پرم پوجیہ ڈاکٹر ہیڈگیوار صاحب کے قدموں میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔آر ایس ایس کے اس باوقار 100 سال کے سفر کی یاد میں بھارتی حکومت نے خصوصی ڈاک ٹکٹ اور یادگاری سکّے بھی جاری کیے ہیں۔
جس طرح وسیع دریاؤں کے کنارے انسانی تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں، اسی طرح آر ایس ایس کے کنارے بھی سینکڑوں زندگیاں پھولی پھلی ہیں۔ جیسے ایک دریا جس راستوں سے بہتا ہے، ان علاقوں کو اپنے پانی سے سیراب کرتا ہے، اسی طرح آر ایس ایس نے اس ملک کے ہر خطے، معاشرے کے ہر پہلو کو چھوا ہے۔ جس طرح ایک دریا کئی لہروں میں خود کو ظاہر کرتا ہے،آر ایس ایس کا سفر بھی ایسا ہی ہے۔آر ایس ایس کے مختلف ادارے بھی زندگی کے ہر پہلو سے جڑ کر قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ تعلیم، زراعت، سماجی بہبود، قبائلی بہبود، خواتین کے بااختیار بنانے، سماجی زندگی کے دیگر کئی شعبوں میں آر ایس ایس مسلسل کام کرتا رہا ہے۔ مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ہر ادارے کا مقصد ایک ہی ہے، جذبہ ایک ہی ہے… راشٹر پرتھم۔
اپنے قیام کے بعد سے ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے قوم کی تعمیر کا عظیم مقصد اپنے سامنے رکھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیےآر ایس ایس نے فرد کی تربیت سے قوم کی تعمیر کا راستہ اختیار کیا اور اس کے لیے جو عملی طریقہ اپنایا وہ روزانہ باقاعدگی سے چلنے والی شاکھائیں تھیں۔آر ایس ایس کی شاکھا کا میدان… ایک ایسی تحریکی زمین ہے، جہاں سے سویم سیوک سنگھ ‘‘میں’’ سے ‘‘ہم’’ کا سفر شروع ہوتا ہے۔آر ایس ایس کی شاکھائیں … فرد کی تربیت کی یگیہ ویدی ہیں۔
قوم کی تعمیر کا عظیم مقصد، فرد کی تربیت کا واضح راستہ اور شاکھا جیسا سادہ، زندہ عملی طریقہ یہی آر ایس ایس کے 100 سالہ سفر کی بنیاد ہیں۔ انہی ستونوں پر کھڑے ہو کرآر ایس ایس نے لاکھوں سویم سیوکوں کو پروان چڑھایا، جو مختلف شعبوں میں ملک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
آر ایس ایس جب سے وجود میں آیا… آر ایس ایس کے لیے ملک کی ترجیح ہی اس کی اپنی ترجیح رہی۔ آزادی کی جدوجہد کے وقت پرم پوجیہ ڈاکٹر ہیڈگیوار جی سمیت متعدد کارکنوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا، ڈاکٹر صاحب کئی بار جیل گئے۔ آزادی کی لڑائی میں کتنے ہی مجاہدین آزادی کوآر ایس ایس پناہ دیتا رہا … ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرتا رہا۔ آزادی کے بعد بھی آر ایس ایس مسلسل قوم کی خدمت میں لگا رہا۔ اس سفر میں آر ایس ایس کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں،آر ایس ایس کو کچلنے کی کوشش بھی ہوئی۔ رشی تولیہ پرم پوجیہ گرو جی کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا۔ لیکن آر ایس ایس کے سویم سیوکوں نے کبھی تلخی پیدا نہیں ہونے دی۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں، ہم معاشرے سے الگ نہیں ہیں، معاشرہ تو ہم سے ہی بنا ہے۔ معاشرے کے ساتھ یکجہتی اور آئینی اداروں پر اعتماد نےآر ایس ایس کے خودسہولت کاروں کو ہر مشکل میں مستحکم رکھا ہے … اور معاشرے کے لیے حساس بنائے رکھا ہے۔
ابتداء سے ہی آر ایس ایس… حب الوطنی اور خدمت کا مترادف رہا ہے۔ جب تقسیم کے المیہ نے لاکھوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا، تب سویم سیوکوں نے پناہ گزینوں کی خدمت کی۔ ہر آفت میں آر ایس ایس کے سویم سیوک اپنی محدود وسائل کے ساتھ سب سے آگے کھڑے رہے۔ یہ صرف امداد نہیں تھی، بلکہ قوم کی روح کو سہارا دینے کا کام تھا۔ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کے دکھ دور کرنا… یہی ہر سویم سیوک کی پہچان ہے۔ آج بھی قدرتی آفات میں ہر جگہ سویم سیوک سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے ایک ہیں۔
اپنے 100 سالہ سفر میں،آر ایس ایس نے معاشرے کے مختلف طبقوں میں خودشناسی پیدا کی… خودی کا احساس جگایا۔ آر ایس ایس ان علاقوں میں بھی کام کرتی رہی جو دور دراز ہیں… جہاں تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔ آر ایس ایس… دہائیوں سے قبائلی روایات، قبائلی رسومات اور قبائلی اقدار کو سنبھالنے میں اپنا تعاون دیتا رہا… اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ آج سیوا بھارتی… ودیا بھارتی، ایکل ودیالیہ، بنواسی کلیان آشرم… قبائلی معاشرے کے بااختیار بنانے کا ستون بن کر ابھرے ہیں۔
معاشرہ میں صدیوں سے گھر کر چکی جو بیماریاں ہیں، جو اونچ نیچ کی سوچ ہے، جو غلط رواج ہیں… یہ ہندو معاشرے کے لیے بہت بڑے چیلنج رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا تشویشناک امر ہے، جس پرآر ایس ایس مسلسل کام کرتا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے لے کر آج تک،آر ایس ایس کے ہر عظیم رہنما نے، ہر سرسنگھ چالک نے بھید بھاؤ اور چھوا چھوت کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ پرم پوجیہ گرو جی نے مسلسل “نہ ہندو پتیتو بھویت” کے جذبے کو آگے بڑھایا۔ پوجیہ بالا صاحب دیورس جی کہتے تھے چھوا چھوت اگر پاپ نہیں، تو دنیا میں کوئی پاپ نہیں! سرسنگھ چالک رہتے ہوئے پوجیہ رجّو بھیا جی اور پوجیہ سدرشن جی نے بھی اسی جذبے کو آگے بڑھایا۔ موجودہ سرسنگھ چالک آدرنیہ موہن بھاگوت جی نے بھی مساوات کے لیے معاشرے کے سامنے ایک کنواں، ایک مندر اور ایک شمشان کا واضح لکشیہ رکھا ہے۔
جب 100 سال قبل آر ایس ایس وجود میں آیا تو اس وقت کی ضروریات، اس وقت کے مسائل کچھ اور تھے۔ لیکن آج، 100 سال بعد، جب بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تو آج کے چیلنجز مختلف ہیں، جدوجہد مختلف ہیں۔ دوسرے ممالک پر اقتصادی انحصار، ہماری یکجہتی کو توڑنے کی سازشیں، آبادیاتی تبدیلی کی سازشیں، ہماری حکومت ان چیلنجز سے تیزی سے نمٹ رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آر ایس ایس نے بھی ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے واضح منصوبہ تیار کیا ہے۔
سنگھ کے پنچ پریورتن، خودشناسی، سماجی مساوات، خاندان کی تعلیم، سماجی اخلاق اور ماحولیات… یہ عہد ہر سویم سیوک کے لیے ملک کے سامنے موجود چیلنجز کو شکست دینے کی بڑی تحریک ہیں۔
خودشناسی کے جذبے کا مقصد غلامی کی سوچ سے آزاد ہو کر اپنی وراثت پر فخر اور سودیشی کے بنیادی عزم کو آگے بڑھانا ہے۔ سماجی مساوات کے ذریعے محروم کو ترجیح دے کر سماجی انصاف کا عہد ہے۔ آج ہماری سماجی مساوات کو دراندازوں کی وجہ سے آبادی میں آرہی تبدیلی سے بھی ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ملک نے بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آبادیاتی مشن کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں خاندان کی تعلیم یعنی خاندان کی ثقافت اور اقدار کو مضبوط کرنا ہے۔ شہری اخلاقیات کے ذریعے ہر شہری میں شہری فرض کا شعور بیدار کرنا ہے۔ ان سب کے ساتھ اپنے ماحولیات کا تحفظ کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔
ان سنکلپوں کے ساتھ،آر ایس ایس اب اگلی صدی کا سفر شروع کر رہا ہے۔ 2047 کے وکست بھارت میں آر ایس ایس کی ہر کوشش، ملک کی قوت میں اضافہ کرے گی، ملک کو تحریک دے گی۔ ایک بار پھر ہر سویم سیوک کو دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد۔
مضمون نگار ملک کے وزیراعظم ہیں
بشکریہ پی آئی بی