اسد مرزا
ہندوستان کی جانب سے 6۔7 مئی کی درمیانی رات کو کیے گئے آپریشن سندور کے بعد، پاکستان نے بدھ (7 مئی) کو کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں اور بھاری گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا۔ ہندوستان نے اسی دن اس جارحیت کا جواب دیاجو کہ دوسرے اور تیسرے روز بھی جاری رہا اور چوتھے دن یعنی 10 مئی کو جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔
ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ہندوستانی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی کو برداشت نہ کرنے کا اصولی موقف اپنایا اور اس طرح کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔تاہم، کسی بھی فعال جمہوریت کا ایک اور اہم ستون یعنی کہ میڈیا ۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا نے مکمل طور پر غیر ضروری تجزیوں کے علاوہ اکثر غلط اور قیاس آرائی پر مبنی خبریں نشر کر کے اپنی ناپختگی کا مظاہرہ کیا، جو اکثر مذہبی عداوت کے بیج بونے کی حد تک جا پہنچا۔ حکومت کی جانب سے سنسنی خیز اور غیر مصدقہ خبروں کو رپورٹ نہ کرنے کے سرکلر کے باوجود ملک کا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اپنے اپنے پہلے سے طے شدہ اور غیر مصدقہ اسکرپٹ کے مطابق صورتحال پر رپورٹنگ کر تا رہا۔اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں 22اپریل کے بعد مسلمانوں کے خلاف جو ایک ماحول بن رہا تھا، اس میں مزید شدت آئی اور رپورٹوں کے مطابق 22 اپریل سے لے کر 10 مئی تک مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پرتشدد جرائم کے کل 106 واقعات رونما ہوئے۔
اس پوری مدت میں ہندوستانی ٹی وی چینلز جنہوں نے اب رپورٹنگ کے ایک بالکل نئے نظام کو اپنا لیا ہے اور کسی بھی معروف صحافتی معیار کی پیروی سے عاری ہیں،انھوں نے ہندوستان کی کامیابیوں کی رپورٹنگ اور پاکستان کی شکست کی رپورٹنگ بالکل اپنے من مانے طریقے سے کی۔ اس میں انہیں دفاعی اور عسکری امور کے مختلف ماہرین نے بھی مدد فراہم کی،ان ماہرین نے صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے رونما ہونے والے واقعات کی اپنی جانبدارانہ اور سنسنی خیز بصیرت پیش کی، جس نے کہ ملک میں فرقہ واریت کے ماحول میں اضافہ کیا۔
ٹی وی چینلز کے بعد سوشل میڈیا تھا، جس نے ہندوستان میں غیر مصدقہ اور بڑی حد تک جھوٹی خبریں پھیلانے کا اپنا ایک منفرد نظام تیار کیا ہے، سوشل میڈیا کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس پر ہر عام آدمی ماہر بن جاتا ہے اور واقعات کی اپنی الگ الگ تشریح پیش کرسکتا ہے۔کچھ ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا کے اکثر پلیٹ فارمز حتیٰ کہ بعض اخبارات میں بھی ایسا ہی ایک مسئلہ زیر بحث تھا کہ اگر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان واقعی جنگ شروع ہو جائے تو کون سا ملک کس کی حمایت کر ے گا یا دوسرے لفظوں میں کون سے اسلامی ممالک پاکستان کی حمایت کریں گے۔ان ماہرین نے جنگ کے بارے میں جغرافیائی سیاسی حقیقتوں کا کوئی سراغ نہ رکھتے ہوئے، حمایت کے پورے سوال کو مذہب کی بنیاد پر تبدیل کر دیا۔اب اگر ہم ان ماہرین کی تشریح کو دیکھیں تو ہندوستان کے پاس اس کی حمایت میں صرف ایک ملک ہوگا، یعنی نیپال، کیونکہ یہ واحد ملک ہے جو خود کو ہندو ملک ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس کئی عرب ممالک جنہیں اکثر اسلامی ملک کہا جاتا ہے،انھوں نے اس مسئلے میں ہندوستان کی حمایت اور پیروی کی۔مزید یہ کہ ان ماہرین نے تمام مسلم اکثریتی ممالک کو اسلامی ممالک قرار دیا، حالانکہ حقیقی معنوں میں ان میں سے کسی ایک ملک کو بھی اسلامی ملک نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک کی صحیح تشریح پر پورا نہیں اترتا ہے۔
ان ماہرین نے اس پر بھی بحث کی کہ کیا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ایران، عمان، قطر جیسے ممالک اسلامی امت کے نام پر اسلام آباد کا ساتھ دیں گے ؟ یہاں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں اس وقت کوئی بھی مسلم یا اسلامی امت جیسی چیز موجود نہیں ہے۔اس پورے معاملے میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا اسلامی ممالک ایک الگ موقف برقرار رکھتے ہوئے اپنے معاشی اور جغرافیائی سیاسی فوائد کو پروان چڑھائیں گے اور اپنی حمایت کو صرف بیان بازی تک محدود رکھیں گے؟یا اپنی علاقائی ترجیحات اور جغرافیائی سیاسی مفادات کی بنیاد پر ان کے ردعمل مختلف ہوں گے۔لیکن حقیقتاً موجودہ تنازعہ میں، سعودی عرب ۔ اسلامی دنیا کے نام نہاد رہنما نے سفارت کاری کو حتمی ہتھیار کے طور پر چنا۔ سعودی عرب کے پاس اس وقت پاکستان کے بجائے ہندوستان کے لیے سرمایہ کاری کے بڑے منصوبے ہیں، اس کے علاوہ ملک میں کام کرنے والے تقریباً 2.6 ملین ہندوستانیوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ درحقیقت، جب کشمیر پر حملہ ہوا، اس وقت پی ایم مودی ہندوستان۔مشرق وسطیٰ۔یورپ اقتصادی راہداری (IMEEC)پر بات چیت کرنے اور100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے جدہ میں موجود تھے۔ مزید برآں جمعرات (8 مئی) کو، سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملنے اور سفارت کاری کے ذریعے اس معاملے کوثالثی کے ذریعے حل کرنے کے لیے ہندوستان کا اچانک دورہ کیا۔
اسی طرح ایران نے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو پاکستان اور ہندوستان میں مذاکرات کرانے اور کشیدگی کو کم کرانے کے لیے ہندوستان بھیج کر اپنے ارادوں کو واضح کر دیا۔ اس وقت ہندوستان، چابہار بندرگاہ پر شاہد بہشتی ٹرمینل کو تیار کرنے اور چلانے کے لئےکام کر رہا ہے، جس میں ہندوستان کی جانب سے $120 ملین کی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے مزید $250 ملین کی کریڈٹ لائن شامل ہے۔ اس پس منظر میں ایران ہندوستان کے ساتھ اپنے مفادات کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔
سعودی عرب کی طرح ہی متحدہ عرب امارات نے پہلے ہی اپنی تیل پر مبنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے ہندوستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، اس لیے ہندوستان کے ساتھ اس کی وابستگی اور ہندوستانی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا اس کی ترجیح رہی۔ اوریہ اس نے ہندوستان کی حمایت کرکے ظاہر بھی کیا۔اس کے علاوہ ترکی کے خلاف بہتان تراشی کی مہم شروع کی گئی، کیونکہ پاکستان نے ہندوستان کے خلاف اپنے حملوں میں کچھ ترک ساختہ ڈرون استعمال کئے تھے۔ لیکن یہ بات یہ ثابت نہیں کرتی کہ ترکی پاکستان کی ہر فوجی مہم میں پاکستان کا ساتھ دے گا۔ درحقیقت، ترکی کے ساتھ ہندوستان کی تجارت میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، مالی سال 2023-24 میں دوطرفہ تجارت 10.43 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جب کہ پاکستان کے ساتھ ترکی کی تجارت گزشتہ سال 1.4 بلین ڈالر کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچی تھی۔اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ترکی یا کوئی بھی ملک اپنے بھاری فوائد کو زیادہ ترجیح دے گانہ کہ مذہب یا فلسفے کی بنیاد پر کسی ملک کی حمایت کرے گا۔
درحقیقت ہندوستان کی طرف سے جو جرات مندانہ موقف اختیار کیا گیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان کے زیر اہتمام دہشت گردی کے مزید کسی خطرے کو برداشت نہیں کرے گا۔ اس موقف کو ہندوستان کی طرف سے سفارتی رسائی سے مزید تائید حاصل ہوئی اور آپریشن سندور کے بارے میں برطانیہ اور امریکہ کو معلومات دینے کے بعد، ہندوستان نے سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور دیگر نام نہاد اسلامی ممالک کو اس بارے میںمطلع کیا۔ جن میں سے اکثر نے ہندوستان کی حمایت کی بشمول سعودی عرب اور ایران۔
میڈیا سے متعلق آپریشن سندور سے سیکھے گئے اسباق سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستانی میڈیا ۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کو صحافتی اخلاقیات اور اصولوں پر عمل کرتے ہوئے خود کو مانیٹر کرنے اور بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے حکومت کو بھی میڈیا پر لگام کسنا پڑے گی۔حکومت نے اپنی طرف سے کرنل صوفیہ قریشی کو وزارت دفاع کی ترجمان کے طور پر تعینات کرکے اور تنازع کے دوران شہید ہونے والے ہر فوجی کے تعاون کو تسلیم کرکے فرقہ واریت کے ماحول کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کام زمینی سطح پر ہونا چاہیے، ساتھ ہی بلیغ اور مذہب سے پاک بیانیہ ہی ملک اور ہندوستانی میڈیا کو بچا سکے سکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی آپریشن سندور نے ہندوستان کو ایک ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت کے طور پر عالمی طاقتوں کے سامنے پیش کرکے ایک واضح اور پُر زور پیغام دیا ہے کہ اب ہندوستان اپنے قوانین کے ساتھ اپنے مسائل حل کرے گا ، خاص طور پر دہشت گردی کے ضمن میں۔ امید ہے کہ دنیا اس کا مثبت نوٹس لے گی۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)