قومی کونسل برائے فروغ اُردوزبان وزارت ترقی انسانی وسائل حکومت ہند کا طریقہ کار باعث تشویش ہے۔ 17 تا 19 مارچ 2017 کو منعقدہونے والی تین روزہ عالمی اُردوکانفرنس میں اردو کے نام پر ہندستان اور بیرون ملک سے کوئی ایسا نام اس کانفرنس کے مندوبین میں نہیں ہے جس نے واقعی اردوزبان کی ترقی میں کچھ کرداراداکیا ہو۔حد تو یہ ہے کہ ہندستان سے باہر سے آنے والے مندوبین زیادہ تر ایسے ہیں جن کا تعلق اردو سے برائے نام ہے۔ مثلاً کویت سے چند نام ایسے ہیں جو صرف اس لیے آرہے ہیں کہ موجودہ ڈائریکٹر کو ان لوگوں نے کویت بلایا تھا اب اسی کے عوض شہاب الدین جیسے شخص کو جو کویت کی اسٹیل فیکٹر ی میں کام کرتے ہیں اور بہار کے رہنے والے ہیں۔ اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں یہی حال کویت سے آنے والے سرفراز احمد کا ہے جو ہندستان کے ہیں اور کویت میں کسی غیر سرکاری کمپنی میں کام کرتے ہیں اورکوئی شخص ان کے نام تک سے بھی واقف نہیں ہے۔ مہتاب قدر جو حیدر آباد کے ہیں اور سعودی عرب میں کسی کمپنی میں ملازم ہیں۔ اردو میں ان کا کوئی ایسا کام نہیں جو اس کانفرنس میں انھیں شرکت کی دعوت دی جائے۔اسی طرح ایران سے زینب سعیدی نام کی خاتون جو محض اردو میں ایم اے ہیں ، ان کو بلایا جارہاہے جو کسی موضوع پر دو منٹ اردو زبان میں گفتگو نہیں کر سکتیں۔ حالانکہ ایران میں اردو کے کئی ایسے لوگ ہیں بالخصوص تہران یونیورسٹی کے سنیئر اساتذہ اور ریڈیو ٹی وی سے جڑے لوگ۔ لیکن اُردوکی ترویج کیلئے حقیقی معنوں میں کام کرنے کیلئے نظر انداز کر کے ایسے لوگوں کو بلانا سوائے سرکاری پیسوں کے بے جا استعمال کے اور کچھ نہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ماریشس جیسے ملک سے جہاں اردو کے کئی صاحب تصنیف ادیب و شاعر ہیں ان کو نہ بلا کر سب سے جونیئر استاد اور اور دو ایم۔اے کی طالبات کو بلایا جا رہاہے۔ کناڈا سے گذشتہ سال جن کو بلایا گیا تھا وہ جاوید دانش ہیں اس بار بھی ان کو مدعو کیا گیا ہے جبکہ کناڈ امیں اردو کے کئی نامی گرامی ادیب و شاعر موجود ہیں۔اس سال جن لوگوں کو بلایا گیا ہے ان میں بیشتر وہ ہیں جن کو پچھلے سال بھی بلایا گیا تھا۔مقررین نے مزیدکہاکہ نام نہاداُردوادیبوں کوبلاکر کونسل کروڑوں روپے ان کے آرام پرصرف کررہی ہے۔ کونسل نے گذشتہ برس ہوئی عالمی کانفرنس کی کارروائی بھی شائع نہیں کی ہے۔
حسرت گڈا
جموں کشمیراُردو فورم