غلام قادر جیلانی
جموں سرینگر قومی شاہراہ موجودہ ناسازگار موسمی صورتحال کے باعث 10دنوںسے بند ہونے سےکشمیر کی میوہ صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ شاہراہ پر لینڈ سلائیڈنگ اور پتھر کھسکنے کی وجہ سے ٹریفک کی نقل و حمل مکمل طور پر رک گئی ہے۔جس کے نتیجے میں پھلوں سے بھرے ایک ہزار کے کے قریب مال بردار گاڑیاں شاہراہ کے بیچ میں پھنس گئ ہیں، جس سے سیب اور ناشپاتی جیسی فصلوں کے سڑنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کاشتکاروں اور تاجروں کے مطابق، اگر ٹرکوں کی آمدورفت معمول پر نہ آئی تو میوہ صنعت کو 200کروڑ روپے تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
سوپور میں، جو ایشیا کی دوسری سب سے بڑی پھل منڈی ہے، تجارتی سرگرمیاں تقریباً تھم سی گئی ہیں۔ صرف چند چھ ٹائر والی گاڑیاں ہی لوڈ کی جا رہی ہیں جبکہ عام دنوں میں 100سے زیادہ گاڑیاں روانہ ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پھلوں کی قیمتوں میں بھی بھاری گراوٹ آئی ہے۔ امریکن سیب کی ایک پیٹی جو پہلے 600روپے میں فروخت ہوتی تھی، اب 400روپے میں مل رہی ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ 15لاکھ روپے کے مالیت کا ایک ٹرک نقصان کی وجہ سے بمشکل ایک یا دو لاکھ روپے ہی کما پاتا ہے۔
اس سنگین صورتحال نے متبادل راستوں کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ ان متبادل راستوں میں دہلی کے لیے مجوزہ کارگو ریل سروس اور مغل روڈ کا استعمال شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے میوہ بردار گاڑیوں کو مغل روڈ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن تاجروں کے مطابق یہ سڑک درکار نقل و حمل کے بڑے پیمانے کو سنبھال نہیں سکتی۔ لہٰذا، نقصان کو کم کرنے کے لیے تمام میوہ بردار گاڑیوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو سے کشمیر اور دہلی کے درمیان ایک خصوصی ٹرین سروس شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاہراہ کی بندش کی وجہ سے کاشتکاروں کو ہر سال مالی نقصان ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ریل سروس میوہ صنعت کو تحفظ اور استحکام دے گی۔
اس سلسلے میں، سوپور فروٹ منڈی ایسوسی ایشن کے صدر نے کاشتکاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ فی الحال سیب کی کٹائی روک دیں اور شاہراہ کے مکمل طور پر بحال ہونے تک اپنی پیداوار کو کولڈ سٹورز میں محفوظ رکھیں۔
ریل سروس کشمیر کی میوہ صنعت کے لیے ایک اہم اور پائیدار متبادل ثابت ہو سکتی ہے جس سے کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکے گا اور نئی منڈیوں تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ ریلوے کا بہتر انفراسٹرکچر میوہ صنعت کو قومی اور عالمی سپلائی چینز سے مزید گہرائی سے جوڑنے میں مدد دے گا۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ مال بردار ٹرین کا آغاز ایک خوش آئند قدم ہو گا اور اس سے سیب کی صنعت اب سرینگر-جموں شاہراہ پر منحصر نہیں رہے گی، جو موسم کی خرابی کی وجہ سے اکثر ہفتوں اور مہینوں تک بند رہتی ہے۔ مقامی تاجروں اور کاشتکاروں کے مطابق، یہ پھلوں کی صنعت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو گا۔
کاشتکاروں اور تاجروں کو امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں جلد مثبت پیش رفت کرے گی تاکہ میوہ کی صنعت کو مزید تقویت اور تحفظ مل سکے اور نقل و حمل کے لیے قومی شاہراہ پر ان کا انحصار کم ہو سکے۔
(مضمون نگاراستاد، گورنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول زوہامہ ہیں۔)