بلال فرقانی
سرینگر//کشمیر سے آج صبح پہلی ایپل پارسل ٹرین نئی دہلی کیلئے روانہ ہوگی۔یہ ٹرین بڈگا م ریلوے سٹیشن سے صبح6بجکر15منٹ پر چلے گی جبکہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ صبح7بجکر30منٹ پر سرینگر ریلوے سٹیشن سے ایپل پارسل ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر نئی دہلی کیلئے روانہ کریں گےجو بڑی برہمنا جموں سے ہوتی ہوئی اگلے صبح5بجے نئی دہلی پہنچ جائے گی۔8ڈبوں پر مشتمل یہ ٹرین روزانہ بنیادوں پر چلے گی اور اس کیلئے وقت مقرر ہے اور اس کو مقررہ وقت کے اندر اندر ہی اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ہے ۔ایک ڈبے میں لوڈ کی صلاحیت23ٹن ہے اور یوں یہ آٹھ ڈبوں والی پارسل ٹرین روزانہ 170ٹن سے زائد مال سرینگر سے نئی دہلی کے درمیان ڈھو سکتی ہے۔گوکہ قومی شاہراہ بندش کے باعث ایپل پارسل ٹرین کو ایک اہم متبادل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہےتاہم تاجروں نے جہاں اس کو خوش آئندہ قدم قرار دیا ہے وہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک ٹرین میں صرف 2500 پیٹیوں کی گنجائش ہے، جو بمشکل 16 ٹرکوں کے برابر بنتی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ایک ٹرین کی روانگی کے بعد تین دنوں میں مال منڈیوں تک پہنچتا ہے کیونکہ ایک دن لوڈنگ، دوسرا دن دہلی پہنچنے، اور تیسرا دن ان لوڈنگ اور تقسیم کیلئے درکار ہوتا ہے۔تاہم ریلوے حکام کا کہناہے کہ اگرڈیمانڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے تو ٹرین بھوگیوں میں اضافہ کیاجائے گا ۔قابل ذکر ہے کہ فی الوقت کشمیر کی اربوں روپے کی میوہ صنعت ہمہ جہت بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف سرینگر جموں قومی شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ نے منڈیوں کو مفلوج کر رکھا ہے، تو دوسری جانب ایپل پارسل ٹرین کی محدود گنجائش اور بازار میں قیمتوں کی شدید گراوٹ نے باغبانوں اور تاجروں کو غیر معمولی مالی نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔ روزانہ اوسطاً ایک ہزار سے زائد گاڑیاں پھلوں سے لدی وادی سے روانہ ہوتی ہیں، تاہم شاہراہ بندش کے باعث ترسیل کا پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔کشمیر فروٹ گروورس اینڈ ڈیلرس ایسو سی ایشن کے مطابق، اس وقت تقریباً 2500ٹرک شاہراہ پر درماندہ ہیں، جو وادی سے باہر مختلف ریاستوں کی منڈیوں کی جانب رواں تھیں۔ایسو سی ایشن کے صدر بشیر احمد بشیر نے کہا کہ منڈیوں میں پھلوں کی بھرمار ہے اور اسٹوریج کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ان کا کہنا تھا ’’ہم نے باغبانوں سے کہا کہ مزید پھل منڈی نہ لائیں، لیکن پھل درختوں پر پک کر گر رہا ہے، اس لیے وہ مجبوراً اپنا مال لا رہے ہیں‘‘۔بشیر احمد بشیر کا کہنا ہے کہ دہلی سے آگے کی منڈیوں میں ترسیل کے لیے پھر سے ٹرکوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جس سے وقت اور لاگت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔منڈی میں رسد کی زیادتی اور ترسیل میں رکاوٹ کے باعث سیب کی قیمتوں میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس وقت کشمیر کی منڈیوں میں سیب کی اوسط قیمت 70 سے 80 روپے فی کلو تک گر گئی ہے، جو گزشتہ سال کے اسی سیزن میں 140سے 150روپے فی کلو تھی۔ باہر کی ریاستوں میں بھی قیمتیں 100روپے فی کلو سے نیچے آ چکی ہیں۔ہارٹیکلچرتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں یہ شدید کمی روایتی باغبانوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے، کیونکہ وہ اپنی پیداواری لاگت تک بھی نکالنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ہائی ڈینسٹی باغبانی کرنے والے کسانوں کو اس بحران سے کچھ حد تک تحفظ حاصل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی ڈینسٹی باغات میں فی ہیکٹر پیداوار 40سے 45 میٹرک ٹن تک ہوتی ہے، جو روایتی باغات سے چار گنا زیادہ ہے۔ ایک سینئر ہارٹی کلچر افسر کے مطابق، ’’اگرچہ قیمتیں کم ہیں، لیکن ہائی ڈینسٹی باغات کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کاشتکار اخراجات نکال کر بھی منافع کما سکتے ہیں۔‘‘کشمیر میں اس وقت 2.70لاکھ میٹرک ٹن کی کنٹرولڈ ایٹموسفیر اسٹوریج گنجائش موجود ہے، جب کہ اس سال مزید 37 ہزار میٹرک ٹن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ کشمیر کی سیب صنعت کی مالیت 10ہزار کروڑ روپے سے زائد ہے اور اس سے براہ راست و بالواسطہ تین لاکھ سے زائد افراد وابستہ ہیں۔