چاک بورڈ سے کریڈٹ بینکوں تک بھارت کا پانچ سالہ انقلاب
اظہار خیال
سال 2020 میں بھارت نے پالیسی جاری کرنے سے کچھ زیادہ کیا، اس نے ایک قدیم نمونہکو دوبارہ زندہ کیا۔ قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ، سیکھنے کو ایک بار پھر قوم سازی کے مرکز میں رکھا گیا، جو ہماری تہذیبی حکمت سے مستقبل کے امکانات کو تشکیل دینے کے لیے تیار ہوا۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ شراکت دار پالیسی سازی کے عمل میں سے ایک کے ذریعے تیار کیا گیا اور (آنجہانی) ڈاکٹرکے کستوریرنگن کی دور اندیشی سے رہنمائی حاصل کی گئی، جن کے تعاون کا ہم دل سے احترام کرتے ہیں۔قومی تعلیمی پالیسی 2020 محض ایک پالیسی دستاویز نہیں تھا۔ یہ ہماری ثقافتی اقدار میں پیوستہ ایک بصیرت والا روڈ میپ تھا، جس میں سیکھنے کو ایک ایسے عمل کے طور پر دوبارہ تصور کیا جاتا ہے جورٹا لگانے ،سخت ڈھانچے اور لسانی درجہ بندی کی قید سے آزاد ہو۔ اس نے ایک ایسے تعلیمی نظام کی منزلیں طے کیں جو جامع، ہمہ گیر اور مستقبل کے لیے تیار ہو، ایک ایسی تعلیم جو ہر سیکھنے والے کو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ترقی کرنے کی طاقت دیتی ہے۔
پانچ سال بعدقومی تعلیمی پالیسی کا تبدیلی کا اثر نہ صرف پالیسی کوریڈورز میں بلکہ کلاس رومز، کیمپسز اوربرادریوں میں نظر آتا ہےبلکہ اس نے بھارت کے نظام تعلیم کے ڈھانچے اور روح دونوںکی نئے سرے سے صراحت کی جوکہ نقطہ نظر میں جامع، ڈیزائن میں سیکھنے پر مرکوز، اور رسائی میں مساوی ہے۔
آج قومی تعلیمی پالیسی کے نقوش ابتدائی بچپن کے کلاس رومز میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں خوشی سے بھرپورکھیل سےرٹا کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسکولوں میں جہاں بچے اپنی مادری زبان میں روانی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ پیشہ ورانہ لیب میں جہاں کلاس 6 کے طلباءتجرباتی ہنر کو تلاش کرتے ہیں اور تحقیقی مراکز میں جہاں بھارت کے علمی نظام جدید سائنس کے ساتھ مکالمے میں مشغول ہیں۔ اس کی عکاسی ایس ٹی ای ایم شعبوں میں خواتین کے عروج، بھارتیہ اداروں کی بڑھتی ہوئی عالمی موجودگی میں، جامع کلاس رومز میں ہوتی ہے جو تنوع کو اپناتے ہیں اور اس نئے یقین کے ساتھ کہ سیکھنا زندگی بھر کاعمل ہونا چاہیے۔
ہماری اولین ترجیح سیکھنے کی بنیاد کو دوبارہ استوار کرنا ہے۔نپن بھارت مشن اس بات کو یقینی بنا کر سیکھنے کے نتائج میں نمایاں بہتری کے ساتھ مثبت اثر ڈالنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے کہ تمام بچے گریڈ 2 تک بنیادی خواندگی اور اعداد و شمار کو حاصل کریں جیسا کہ قومی پالیسی 2020 میں تصور کیا گیا ہے۔نپن بھارت کی کامیابی اے ایس ای آر 2024 اور پرکھ راشٹریہ سرویکشن 2024میں جھلکتی ہے جس نے کلاس روم کومحض تعمیل کی بجائے تجسس اور فہم کی جگہوں میں تبدیل کردیا۔
ودیا پرویش جیسی پہل اوربال واٹیکاکے ادارہ جاتی عمل نے ملک بھر میں ابتدائی بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم کو مربوط کرنے کی ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے۔
اس کی مزید حمایت نئے دور کی نصابی کتب کی ترقی اور 22 بھارتیہ زبانوں میں جادوئی پٹار ہ اور ای جادوئی پٹارہ کا تعارف ہے۔ 14 لاکھ سے زیادہ اساتذہ نے نشٹھا کی تربیت مکمل کی ہے اوردکشا جیسے پلیٹ فارم نے ملک بھر میں اعلیٰ معیار کے تدریسی وسائل تک رسائی کو بڑھا دیا ہے۔
زبان پر پالیسی کی توجہ بھی اتنی ہی بنیادی ہے۔قومی تعلیمی پالیسی نے تسلیم کیا کہ زبان رکاوٹ نہیں بلکہ بااختیار بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ زبان کے 117 پرائمر تیار کیے جانے اور ایک مضمون کے طور پر بھارتیہ اشاروں کی زبان کے تعارف کے ساتھ، کثیر لسانی، جامع تعلیم کے وژن کو بڑے پیمانے پر پورا کیا جا رہا ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف علمی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہیں بلکہ بچے کی ثقافتی شناخت کو تقویت دیتی ہیں۔ بھارتیہ بھاشا پُستک یوجنا اور نیشنل ڈیجیٹل ڈپازٹری فار انڈین نالج سسٹمز جیسے اقدامات لسانی اور تہذیبی تعلیم تک رسائی کو مزید جمہوری بنائیں گے۔
اس کے بعدقومی تعلیمی پالیسی نے طلباء میں تجسس اور تنقیدی سوچ کومہمیز دینےکے لیے نئے نصاب اور نصابی کتب کا از سر نو تصور کیا ہے۔ نیشنل کریکولم فریم ورک برائے اسکول ایجوکیشن اور گریڈ 1-8 کے لیے نئی نصابی کتابیں پہلے سے ہی موجود ہیں، جس سے تمام شعبوں میں قابلیت پر مبنی سیکھنے اور انضمام کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ نصاب کی منتقلی کے لیے برج پروگرام اور پریرانہ جیسے تجرباتی سیکھنے کے اقدامات اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ طلبا جذبات سےمغلوب نہ ہوں بلکہ ہر مرحلے میں ان کی حمایت کی جائے۔
سمگر شکشا اور پی ایم پوشن جیسی مرکزی اسپانسر شدہ اسکیموں کی متحرک کوششوں کے ساتھ، بھارت نے تقریباً آفاقی اندراج حاصل کیا ہے، جس میں ابتدائی سطح پر 91.7فیصد جی آر تک پہنچ گیا ہے، اور ثانوی سطح پر مسلسل فائدہ ہے۔ اب توجہ اسکولی تعلیم کے تمام سطحوں پر سیکھنے کے نتائج کو بہتر بنانے پر ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کی رسائی پہلے سے محروم آبادیوں تک بھی پھیل گئی ہے۔ پسماندہ گروپوں کی 7.12 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں 5,138 کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیوں میں داخل ہیں۔پی وی ٹی جی سیکھنے والوں کے لیے 490 سے زیادہ ہاسٹل اور دھرتی آبا جنجاتیہ گرام اتکرش ابھیان کے تحت 692 ہاسٹل منظور کیے گئے ہیں۔
مساوی رسائی کو بڑھانےاسکول کی تعلیم تک عالمی رسائی اور ڈراپ آؤٹ کو کم کرنے کی یہ کوششیں قومی تعلیمی پالیسی2020کی ایک اور واضح کامیابی کی عکاسی کرتی ہیں ۔ مضبوط انفراسٹرکچر، معذوری کی جانچ کے لیے پراشسٹ جیسے جامع پروگرام، اور نئے ڈیجیٹل ٹولز کے ساتھ، اسکول کا نظام زیادہ لچکدار اور جامع ہوتا جا رہا ہے۔
اس تبدیلی کا ایک اہم محرک14500پی ایم شری اسکول کا قیام ہے۔ یہ جدید، جامع، اور سبز اداروں کواین ای پی کے وژن کے ساتھ ہم آہنگ مثالی اسکولوں کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے، ان کے علاقوں میں جدت اور بہترین طریقوں کو متحرک کرتے ہوئے بنیادی ڈھانچے اور تدریس کی نئی تعریف کی جا رہی ہے۔
کمیونٹی کی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے، ودیانجلی پلیٹ فارم نے 8.2لاکھ سے زیادہ اسکولوں کو 5.3لاکھ سے زیادہ رضاکاروں اور 2000سی ایس آر پارٹنرز کے ساتھ جوڑا ہے، جس سے 1.7کروڑ طلبہ کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے۔ یہ جن بھاگیداری کی ایک غیر معمولی مثال ہےجومشترکہ ذمہ داری کے ذریعے سیکھنے کے ماحولیاتی نظام کو مضبوط کررہاہے۔
اعلیٰ تعلیم میں تبدیلی کم گہری نہیں ہے۔ کل اندراج 3.42کروڑ سے بڑھ کر 4.46کروڑ ہو گیا ہے، جو کہ 30.5 فیصد اضافہ ہے۔ خواتین اب تمام طلباء کا تقریباً 48فیصدپر مشتمل ہیں، اور خواتین کی پی ایچ ڈی اندراج 0.48 لاکھ سے بڑھ کر 1.12 لاکھ ہو گئی ہے۔
داخلہ میں یہ توسیع، خاص طور پر ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، اور اقلیتی طلبہ کے لیے، اعلیٰ تعلیم میں شمولیت کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔ خواتین جی ای آر نے مسلسل چھ سالوں سے مردجی ای آر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو این ای پی کے مساوی ویژن کا ایک متاثر کن ثبوت ہے۔
اس کے متوازی، اعلیٰ تعلیم کے ساختیاتی تانے بانے کو نئی شکل دی گئی ہے۔ ملٹی پل انٹری اینڈ ایگزٹ(ایم ای ایم ای) کا تعارف، اکیڈمک بینک آف کریڈٹس (اے بی سی )جس میں 21.12 کروڑ سے زیادہ اپار آئی ڈی جاری کیے گئے ہیں، اور نیشنل کریڈٹ فریم ورک(این سی آر ایف) نے بے مثال لچک اور نقل و حرکت فراہم کی ۔ 153 یونیورسٹیاں ایک سے زیادہ داخلے کی پیشکش کرتی ہیں اور 74 سے زیادہ باہر نکلنے کے اختیارات پیش کرتی ہیں، سیکھنا اب لکیر نہیں بلکہ یہ ماڈیولر، طلباء سے چلنے والی اور مستقبل کے لیے تیار ہے۔
ان فریم ورکس ایم ای ایم ای،اے بی سی اور این سی آر ایف پر عمل نےبھارت کو ان چند ممالک میں سے ایک بنا دیا ہے جو اس طرح کے مربوط ڈیجیٹل تعلیمی نظاموں کے ذریعے زندگی بھر سیکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
تحقیق اور اختراع پراین ای پی کے زور نے پہلے ہی اس کو مفید بنادیا۔ بھارت کے گلوبل انوویشن انڈیکس رینک کو 81 ویں سے 39 ویں نمبر پر لانے سے لے کر 400 ایچ ای آئیز میں 18,000 سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو شامل کرنے تک، ہمارے کیمپس تیزی سے اختراعی مرکز بن رہے ہیں۔انو سندھان این آر ایف،پی ایم آر ایف صفر ٹو اور 6,000 کروڑ کا ون نیشن ون سبسکرپشن پہل تحقیق تک رسائی کو جمہوری بنانے اوراس کومقامی کرنے کے لیے ہمارے عزم کو مزید ظاہر کرتا ہے۔
ٹیکنالوجی ایک محرک قوت بنی ہوئی ہے۔سویم اور سویم پلس جیسے پلیٹ فارمز نے مجموعی طور پر 5.3 کروڑ سے زیادہ اندراجات ریکارڈ کیے ہیں، اوردکشا اور پی ایم ای ودیا جیسے اقدامات کے تعاون سے 200 سے زیادہ ڈی ٹی ایچ چینلز، ملک بھر میں سیکھنے والوں کو اعلیٰ معیار کا مواد فراہم کر رہے ہیں۔
بھارت کے ڈیجیٹل لرننگ ایکو سسٹم کی کامیابی جن میں دو سالہ داخلوں کے رول آؤٹ، دوہری ڈگری کے ضوابط شامل ہیں ،اس نے اعلیٰ تعلیم کو مزید جامع، بین ضابطہ اور صنعت سے متعلقہ بنا دیا ہے۔
بھارت کی بڑھتی ہوئی علمی حیثیت اب عالمی سطح پر جھلک رہی ہے۔کیوایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2026 میں، 54 بھارتیہ اداروں نے اس فہرست میں جگہ بنائی، جو کہ 2014 میں صرف 11 سے زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی، ڈیکن، وولونگونگ، اور ساؤتھمپٹن جیسی عالمی یونیورسٹیوں نے بھارت میں کیمپس قائم کیے ہیں، جو ہماری بڑھتی ہوئی ساکھ اور عزائم کا ثبوت ہے۔
اس تبدیلی کے سفر کو اکھل بھارتیہ شکشا سماگم کے ذریعے منایا جا رہا ہے، لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسے لاکھوں سیکھنے والوں، اساتذہ اور والدین کے پرسکون اعتماد میں ماپا جا رہا ہے۔قومی تعلیمی پالیسی 2000کبھی بھی اعلان نہیں تھا۔ یہ ایک کھلنے والی نشاۃ ثانیہ ہے، جس کا نشان شور سے نہیں بلکہ گہرائی سے، رفتار سے نہیں بلکہ پیمانے سے ہے۔
پھر بھی، ہم آگے کی راہ کواپنے ذہن میں رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے کیمپسز کو سرسبز بنانا جاری رکھنا چاہیے، تحقیق کے اہم ڈھانچے کو وسعت دینا چاہیے، فرنٹیئر ٹیکنالوجیز میں ٹیلنٹ کو پروان چڑھانا چاہیے، اور ہر ضلع میں سیکھنے کے نتائج کو گہرا کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی دور اندیش قیادت میں، ہم نے محسوس کیا ہے کہ تعلیم صرف پالیسی نہیں ہے، یہ ہماری سب سے بڑی قومی سرمایہ کاری ہے، ہمارا اخلاقی کمپاس، اور مستقبل کے لیے ہمارا اجتماعی وعدہ ہے۔
وہ شعلہ جو 2020 میں روشن ہوا تھا اب ہمارے تعلیمی نظام کے ہر کونے کو روشن کر رہا ہے۔ لیکن اس کا اصل مقصد گھروں، دلوں اور افق میں مزیدلاکھوں چنگار ی کو جلانا ہے۔ یاترا ودیا، تتر پرگتی، جہاں سیکھنا ہے، وہاں ترقی ہے۔ ایک ارب ذہن جو بااختیار ہے اور کسی قید سے آزاد ہیںوہ صرف آبادیاتی فائدہ نہیںبلکہ ایک نئے بھارت کا سپرنووا ہیں۔
یہ بھارت کا سنکلپ ہے، جو ہر روز ان بچوں کے روشن خوابوں میں آشکار ہوتا ہے جنہیں اب یقین ہے کہ وہ جڑوں میں رہتے ہوئے بلندی پر پہنچ سکتے ہیں، اور جو ایک ترقی یافتہ بھارت کی تقدیر کو تشکیل دے گا۔
(مضمون نگار مرکزی وزیر تعلیم ہیں،مضمون میں اظہارکے گئے خیالات ذاتی ہیں)