قائد اعظم محمد علی جناح نے جب ہندوستان کے شمال مغربی و شمال مشرقی مسلم اکثریتی علاقوں کیلئے ایک علحیدہ مملکت کی مانگ کی تو دو قومی نظریہ اُن سے منسوب ہوا، حالانکہ گہرے تاریخی تجزیے میں یہ عیاں ہے کہ دو قومی نظریہ ہندوستان میں 19؍ویں صدی کے آواخر میں منظر عام پہ آیا تھا ۔گرچہ اس نظریے نے 20؍ویں صدی کی ابتدائی دَہائیوں میں تقویت پائی جب کہ محمد علی جناح سیکولر نظریات کے علمبردار تھے۔سیکولر نظریے سے وہ ایک علحیدہ مملکت کی مانگ پہ کیوں مجبور ہوئے، یہ ایک لمبی داستان ہے اور اُس کے بیاں میں ایک کالم کیا کئی کتابیں بھی کم پڑیں گی ۔ویسے بھی یہ موضوع آج ہمارے تجزیے میں شامل نہیں بلکہ آج کا کالم برصغیر میں نیشنل ازم کے نظریے سے وابستہ ہے جس کی تعریف بر صغیر میں بدلتی رہتی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف ادوار میں نیشنلزم مختلف عنوانوں کے ساتھ منظر عام پہ آیا ہے جس پہ ہماری توجہ مبذول رہے گی۔
17؍آگست کے روز پاکستان کے معروف رونامے ’ڈان‘ میں اوین بنٹ جونز کا ایک انتہائی دلچسپ مقالہ نظر سے گذرا جو اس خامہ فرسائی کا سبب بنا۔موصوف مدت دراز تک پاکستان میں بی بی سی کے خبر نگار کی حثیت سے پاکستانی سیاست کے ہر پہلو پہ گہری نظر رکھتے ہیں اور ’پاکستان طوفان کی آنکھ میں(Pakistan-in eye of strorm)‘ اُن کی ایک مشہور تصنیف ہے۔ 17آگست کے مقالے میں وہ ر قم طراز ہیں کہ پاکستانی طالبا ن کے ساتھ مبارزہ آرائی میں جب پاکستانی افواج میں کئی فوجی طالبان کے ساتھ مل گئے تو یہ اِس پالیسی کا سبب بنا کہ طالبان کے خالص مذہبی نظریے کو پاکستانی نیشنلزم سے یعنی خالص وطن عزیز کی محبت سے نبٹا جائے اور یہ پالیسی موثر رہی حالانکہ پاکستان بننے کی وجہ مسلمانان ہند کیلئے اُن علاقوں میں جہاں اُن کی اکثریت ہے ایک علحیدہ مملکت کی مانگ تھی اور دو قومی نظریہ پاکستانی کی نصابی کتابوں کا اہم باب بن گیا۔ اوین بنٹ جونز کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کی 70؍ویں یوم آزادی کی تقریبات میں بھی پاکستانی نیشنل ازم منظر عام پہ رہا ۔
اوین بنٹ جونز کے نظریے کا تحرک کیا بنا اُس سے صرف نظر کہا جا سکتا ہے کہ محمد علی جناح نے پاکستان بنتے ہی نئی مملکت میں مذہبی آزادی کی تلقین کی۔اسلام کے وسیع نظریے سے پرکھا جائے تو محمد علی جناح کی تلقین اسلامی نظریات کی ترجمانی تھی جہاں اقلیتوںکو اسلامی مملکت کی مقدس امانت مانا جاتا ہے جن کی حفاظت واجب ہے۔بہر صورت جونز کے تجزیے کو صحیح بھی مانا جائے تب بھی یہ عیاں رہا کہ گر چہ پاکستان آئینی حیثیت سے ایک اسلامی مملکت ہے لیکن اس آئینی حیثیت کو اگر کسی گروہ نے غلط رنگ میں رنگنے کی کوشش کرے تو اِس کوشش کو نا کام بنانے میں ریاستی ادارے تحرک میں آ گئے ۔پچھلی کم و بیش ایک دَہائی کے دوراں یہ عیاں رہا ہے کہ پاکستانی طالبان کی مہم نہ صرف پاکستان کیلئے بلکہ خطے کیلئے ایک خطرہ ہے۔ اوین بنٹ جونز کے تجزیے کو گہرائی میں جانچا جا ئے تو اُن کا یہ ماننا رہا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے کسی گروہ کو مذہب کی غلط تشریح کی اجازت نہیں دی گئی۔ جونز اِسے پاکستانی نیشنلزم سے تعبیر دیتے ہیں جو کہ اُن کی نظر میں آج کے پاکستان میں منظر عام پہ آ رہا ہے۔
اوین بنٹ جونزکے نیشنلزم یعنی وطن پرستی کے تجزیے نے اِس موضوع پہ یادوں کے دریچے کھول دئے جہاں یہ عیاں ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں ہندوستان میں نیشنلزم کی مختلف تعریفیں منظر عام پہ آئیں جو کہ وقت کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی تھیں۔16ویں صدی کے وسط میں جبکہ ہندوستان پہ مغل اعظم جلال الدین محمد اکبر کی حکمرانی تھی ملک ایک نئی صورت حال سے دو چار تھا۔ 12ویں صدی سے ایشائی مرکزی کے سلاطین کی حکومت کی شروعات سے صدیوں پہ محیط ایک لمبے دور کے دوراں ہندوستانی آبادی کے ایک خاطر خواہ حصے نے اسلام قبول کیا جبکہ ایشائی مرکزی کے کئی مسلم گروہ بھی یہاں بسنے لگے اور ایسے میں مسلمین ایک خاطر خواہ اقلیت بن گئے۔ اکبر نے ملکی سیاست کو چرخانے کیلئے ہندوستانی نیشنلزم کو در پیش رکھا جس میں ہر مذہب کے پنپنے کی گنجائش رکھی گئی بلکہ اکبر کے حرم سرا میں راجپوت رانی جودھا بائی کو افضل ترین مقام حاصل تھا اور اکبر کے جانشین شہزادہ سلیم اُن ہی کے بطن سے پیدا ہوئے اور شہنشاہ بننے پہ نورالدین جہانگیر کا خطاب اختیار کیا۔اکبر کے وزرا کی کونسل میں جنہیں نو رتن کہا جاتا تھا معروف ہندو وزیر تھے جن میں وزیر مال ٹوڈرمل کے علاوہ بیربل، راجہ بھگون داس اور راجہ مان سنگھ شامل رہے۔مذہبی سنگم نے اکبر کو ایک نئے خود ساختہ دینی فکر کو رائج کرنے کی شہ دی لیکن اُن کا یہ ’’ دین الہٰی‘‘ شدید اختلافات کا شکار ہوکر بے مطلب ہوکر رہا۔ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی مانند اکبر نے اس نظریے سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
جلال الدین اکبر کی پالیسی جو بھی رہی ہو کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دور حکومت تک امیر تیمور کے وارثوں کی ہندوستانی شناخت واضح ہو چکی تھی۔ ظہیر الدین بابر نے ہندوستان فتح تو کیا لیکن نہ ہی وہ کابل کے باغات ،نہ ہی وہاں کے تربوزے اور نہ ہی متعدل آب و ہوا کو بھولے تھے۔ہندوستان کی گرم تپتی ہوئی زمیں اُنہیں راس نہیں آئی ۔کابل کی یاد اُنکی معروف سوانح ’تزک بابری‘ میں ثبت ہے ۔اُن کا یہ تاریخی جملہ کہ ’بابر بہ عیش کوش عالم دوبارہ نیست (بابر عیش کر یہ دنیا دوبارہ نہیں ملی گی‘ اُن کے دلی رحجان کا گواہ ہے لیکن جہاں بابر کو کابل کی یاد ستاتی تھی وہی اُن کے پوتے اکبر نے ہندوستان کو تاج و تخت کی مرکزیت بخش کے کابل کو ہندوستان کا صوبہ بنایاجہاں کسی بھی باغی سر گرمی کو سختی سے کچلنے کے احکامات تھے۔ہندوستان کو اکبر اور اُس کے مغل جانشینوں نے نہ صرف اپنی محبتوں ،نوازشوں و جانفشانی سے نوازا بلکہ اِس وسیع ملک کو متحد رکھنے کیلئے قربانیوں سے بھی دریغ نہیں کیا حتّی کہ اورنگ زیب جو آج بھی شدید تنقید کا شکار ہیں ہندوستان کے جنوب کو شمال مغرب سے جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔یہ کارنامہ مغل اعظم جلال الدین اکبربھی انجام نہیں دے سکے۔اور تو اورنگ زیب کی افواج میں جے سنگھ جیسے ہندو جنرل بھی شامل تھے۔ مجموعاََ اکبر اور اُس کے جانشینوں نے ہندوستانی نیشنلزم کی روایات کو قائم رکھا اگر چہ شخصی دائرے میں اورنگ زیب پکے مسلمان تھے۔
اوررنگ زیب کے راج سنگھاسن تک پہنچتے پہنچتے مرہٹوں نے اپنی ایک ریاست قائم کی تھی جس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ اورنگ زیب کی فوجی لائن جنوب تک کھنچی جا چکی تھی ۔شیوا جی کے راج سنگھاسن میں اُس نظریے کی بنیاد پڑ نے لگی جس نے آگے چل کے ہندوستان کی اکثریت کو سیاسی طاقت پہ قابض ہونے کی تحریک دی۔ ہندوستان میں شاطر فرہنگیوں نے ہندو مسلم تنازعات کو ہوا دینی شروع کی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی فرہنگیوں کے خلاف مہمات کو مسلمین کی سیاسی طاقت پہ پکڑ رکھنے کی سعی سے تعبیر دی گئی اور یہی رویہ غدر کے دوران اپنایا گیا حالانکہ غدر میں منگل پانڈے جیسے جیالے باغی فوجوں کی کماں سنبھالے ہوئے تھے۔ غدر کو ہندوستانی آزادی کے بعد بھی غدر ہی کہا جاتا ہے جو کہ بہر حال ایک منفی عنواں ہے۔آج تک ہندوستان کے تاریخی حلقوں میں یہ منفی عنواں کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ اِسے ملک کو آزادی سے ہمکنار کرنے کی ایک کوشش کا تاریخی عنواں دیا جانا چاہیے تھا لیکن ہندوستان کی آزادی کے 70 سال بیتنے پر بھی 1858ء میں برطانوی تسلط کے خلاف فوجی بغاوت کو غدرکہا جاتا ہے۔ اِس سے پہلے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی برطانیہ کے خلاف محاز آرائی کو مسلمین ہند کی طرف سے اپنی سیاسی طاقت کو بر قرار رکھنے کی کوششوں سے تعبیر دی گئی حالانکہ بنگال اور دکن کی فوج میں ہندؤں کی خاصی تعداد شامل تھی۔
مندرجہ فوق تاریخی واقعات کے پس منظر میںدر اصل ہندوستان میں نیشنلزم اور وطن پرستی کا بدلتا ہوا تصور تھا۔فرہنگیوں کا ہندوستانی سیاست میں ایک اہم فریق کی حثیت اختیار کرنا حیدر علی وٹیپو سلطان کی طاقت کو کچلنے اور 1858ء کے بعد مغلیہ سلطنت کی مکمل پسپائی کے بعد ہی ممکن بن سکا ۔اِن مہمات کی کامیابی میں صادق علی اور میر جعفر جیسے غداروں کا ساتھ فرنگیوں کو حاصل رہا ۔فرنگیوں کا پہلا حدف مسلم سیاسی طاقت کا خاتمہ تھاجو اُنہوں نے ہندوستان کے اہم ترین فرقوں ہندؤں و مسلمانوں کے مابین دراڑ ڈال کے حاصل کیا ۔یہ تقسیم کرو حکومت کرو (Divide & Rule) کا پہلا مظاہرہ تھا۔اس کا ایک اہم جز تاریخ کی غلط تشریح تھی۔اس تشریح میں مسلمین کی حکومت کو خارجی تسلط سے تشبیہ دی گئی جبکہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت مطلق یہی کے بسکین تھے اور اگر باہر یعنی سنٹرل ایشیا سے مسلم قبیلے یہاں آ کے بس بھی گئے تو اُنہوں نے یہاں کی مٹی کو ہی اپنا لیااور یہی کے ہو لئے ۔یہ سلسلہ ایبک شاہی خاندان سے شروع ہوتے ہوئے لودھی شاہاں سے گذرتے ہوئے مغلیہ سلطنت تک جا پہنچا۔اُس سے پہلے سلطان محمود غزنوی کے طوفانی حملوں کے دوراں ہندوستان میں دائمی سکونت کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور سلطان محمود کا دارلخلافہ غزنی کا شہر ہی رہا ۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلمین کی اکثریت مطلق باہر سے آئی تو اُنہیں بعد میں آنے والے مہاجرین کہا جا سکتا ہے کیونکہ ہندوستان میں سب سے پہلے مہاجرین کا ٹولہ جنوب کے دراوڑوں کا تھا اور پھر شمال میں سنٹرل ایشیا سے آریائی نسل کے لوگ آ گئے پس ہندوستان آبادی کی اکثریت مطلق تاریخی اعتبار سے ہندی الاصل ہے ہی نہیں۔ مسلمین کو خارجی کہنا ایسا ہی ہے جیسے کہ پہلے آنے والا مہاجر بعد میں آنے والے مہاجر کومہاجر کہے بے خبر از اینکہ تاریخی اعتبار سے وہ بھی مہاجرین کے ٹولے میں شامل ہیں۔
19ویں صدی کے آواخر اور 20ویں صدی کی ابتدائی دَہائیوں میں ہندوستان میں وطنیت اور وطن پرستی کا تصور بدلنے لگا۔نابا گوپال مترا نے19ویں صدی کے آواخرمیں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان کے ہندو ایک قوم ہیں جو کہ مسلمانوں و عیسائیوں سے بہتر ہے اور یہ بھی کہا کہ قومی اتحاد کی بنیاد ہندو مذہب ہے ۔اُنہوں نے تلقین کی کہ ہندؤں کو ایک آریائی قوم کی تشکیل دینی چاہیے۔ 20ویں صدی کے اوائل میں بائی پرمانند نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندواور مسلم دو علحیدہ قومیں ہیں جو کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔پرمانند آریائی سماجی تھے اور اِس تنظیم کا حدف ہندو ازم کی تجدید نو تھی ۔ اپنی سوانح (My Life:میری زندگی) میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ کیسے اُنہوں نے 1908 ء میں آبادی کے تبادلے اور ہندؤں و مسلمین کو مختلف جغرافیائی خطوں میں بسانے کی تجویز پیش کی تھی۔ 14دسمبر 1924 ء کے روز بمبئی کے مطبوعاتی پرچے (Tribune:ٹریبون) میں لالہ لاجپت رائے نے ہندؤں کے ہندوستا ن اور غیر ہندؤںکے ہندوستان (ہندو انڈیا اور نان ہندو انڈیاHindu India and non-Hindu India) کے مابین پارٹیشن یعنی تقسیم کی ترجمانی کی۔ قارئین یہ ذہن میں رکھیں کہ لالہ لاجپت رائے کانگریسی تھے اور یہ تنظیم سیکولر مانی جاتی تھی۔
وی ڈی ساوارکر جو کہ ایک شاعر اور ڈرامہ نویس تھے، نے 1923ء میں ’ہندتوا‘ کا نظریہ منظر عام پہ لایا اور یہی اُن کی تصنیف کا عنوان بھی رہا ۔ اِس نظریہ کا مفہوم ہندو شناخت تھی ۔اُنہوں نے یہ لکھا کہ عیسائی اور مسلمان ہندو وطنیت کی شناخت سے باہر ہیں۔1937 ء میں اُنہوں نے ہندو مہاسبھا کے 19؍ویں اجلاس میں یہ کہا ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔1939ء میں گول والکر نے جو کہ آر ایس ایس کے سپریم لیڈر تھے ایک کتاب کی اشاعت کی جس کا عنواں تھا (We, Or Our Nationhood Defined:ہم اور ہماری قومیت کی تعریف) اور اِس میںاُنہوں نے تحریر کیا کہ ہندوستان کی اقلیتوں خاص کر مسلمین کو ہندؤں میں شامل ہونا چاہیے۔اُنہوں نے یہ بھی رقم فرمایاکہ غیرہندو تب تک بھارتی نہیں بن سکتے جب تک وہ پاک نہ ہوں جائیں یعنی ہندو نہ بن جائیں ۔گول والکر کی نظر میں ہندو ہندوستان کی قومی نسل ہے ۔اُنہوں نے نازی جرمنی کی مثال دی جہاں اُن کے نظریے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کو اقلیتوں کے ساتھ روش اختیار کرنے کی مثال مانا جا سکتا ہے۔اِن حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ مسلمین ہند کیلئے ایک الگ ملک،پاکستان کے مطالبے سے بہت پہلے منظر عام پہ آیا تھا ۔
ساوارکراور گول والکرکی آج کے بھارت میں جے جے کار ہو رہی ہے جو نیشنلزم کا ایک ایسا نظریہ پیش کرتے ہیں جہاں اقلیتوں کے لئے کوئی محل و مکاں نہیں رہتا جب کہ اوین بنٹ جونز ایک ایسے پاکستان کا نظریہ پیش کرتے ہیں جہاں مذہبی شدت پسندی سے عاری خالص پاکستانی قوم پرست نظریہ منظر عام پہ آرہا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ بر صغیر میں نیشنلزم کا بدلتا ہوا تصور زمانے کے مزاج کے تابع ہے اور بر صغیر میں نیشنل ازم کا ایک مستقل تصور آج تک ترتیب نہیں پایا ہے۔اس بدلتے ہوئے تصور کے خطرات دور حاضر کے بر صغیر میں عیاں ہیں۔
Feedback on<[email protected]>