سید مصطفیٰ احمد
آج کل دسویں جماعت سے لے کر بارویں جماعت کے امتحانات زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔ پرچوں کا معیار بھی کسی حد قابل تعریف ہے۔ کچھ غلطیاں کا پرچوں میں در آنا قدرتی بات ہیں۔ جتنے بھی پرچوں کا امتحان ابھی تک لیا گیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اتنی کم مدت میں جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے اتنے شاندار انداز میں کم و بیش شفاف انداز میں امتحانات منعقد کروائے۔ واقعی قابل تعریف عمل ہے۔ ایک نجی اُستاد ہونے کے ناطے میں کچھ گزارشات وزیر تعلیم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارا آنے والا کل شاندار اور پائیدار ہو۔ جیسا کہ ہم اس بات سے بخوبی ہیں کہ تعلیم قوموں کی ترقی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ سوجھ بوجھ کے علاوہ زندگی کی باریکیوں سے روشناس کروانا تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ جو شخص علم کے نور سے منور ہوجاتا ہے،اسے پھر دنیاوی روشنیوں کی کوئی بھی حاجت نہیں ہیں۔ وہ روحانی روشنی سے اپنے اندر اور باہر کی دنیاؤں میں روشنی بکھیر سکتا ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے میں آنے والی سطروں میں کچھ مختصر گزارشات وزیر تعلیم سے کرنے کی جسارت کرنے جارہا ہوں۔
پہلی گزارش ہے جتنا ہوسکے امتحانات میں نقل کرنے کا رواج کم ہو۔ پورے سال خرگوش کی نیند سونے کے بعد بیشتر طلباء نقل کی بوریاں بھر کر امتحانی مراکز میں اپنے ہنر کا بھرپور استعمال کرکے مارکس کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ اس قسم کے طلباء کبھی بھی محنت کرنے کی طرف مائل نہیں ہوجاتے ہیں۔ اس غلیظ طریقے سے حاصل کئی گئی کامیابی آگے چل کر کسی بھی کامیابی کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ میں نے خود طلباء کو ماضی میں نقل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ اپنے ساتھ موبائل فونز بھی ساتھ لاتے ہیں۔ کوئی طالب علم امتحان کے کمرے میں بیٹھ کر دوست کو امتحانی پرچے کے جوابات آن لائن applications کے ذریعے بھیج کر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی اپنے کانوں میں bluetooth ڈال کر سخت سوالات کے جوابات نکال کر اول پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ ایسے قوانین ترتیب دئیے جانے چاہیے تاکہ نقل کا عنصری بہت حد تک کم ہو۔ دوسری گزارش جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے، وہ ہے کہ دسویں، گیارہویں اور بارویں جماعت کے امتحانی پرچوں کے جوابات کو تجربہ کار اساتذہ سے حل کرکے اگلی جماعتوں میں آنے والے طلباء کے لئے مہیا رکھے جائیں۔ اس سے بہت سارے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے یہاں انگریزی میں message writing اور letter writing کے اصولوں پر بات آج تک بات نہیں جمی ہے۔ لوگ مختلف قسم کے formats کو گلے لگائے بیٹھے ہیں جس سے ایک طلبہ تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ آٹھویں جماعت کی انگریزی کتاب میں message writing کے format میں وقت کا ذکر سرے سے ہی نہیں ہے۔ میں نے خود CBSE کی مختلف کتب میں اس بات کو کئی بار پڑھا ہے کہ وقت میسج تحریر کرنے کے وقت انتہائی ضروری ہے، لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اسی طرح notice writing میں بھی اختلافات کے ڈھیر پائے جاتے ہیں۔ کتنی جگہ ایک heading کے بعد چھوڑنی ہے، اس پر بھی ایک بات پر منتہج ہونا مشکل ہے۔ اس لیے اس ضمن میں آپ سے گزارش ہے کہ سارے پرچوں کے تحریری جوابات طلباء کے لیے مہیا رکھنا ایک خوش آئند قدم ہوسکتا ہے۔ تیسری گزارش ہے کہ rote learning کی جگہ تعمیری تعلیم پر زور دیا جائے۔ ہمارے یہاں بڑے بڑے کوچنگ مراکز طلباء کو امتحانات سے پہلے اتنے اچھے guesses دیتے ہیں کہ ان میں سے نصف سے زیادہ بورڈ کے امتحانات میں پوچھا جاتاہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام ترتیب دیا جانا چاہیے جس میں ایک طالب علم امتحان کے آخری لمحے تک اس شش و پنج میں رہے کہ کیا پوچھا جاسکتا ہے اور کیا نہیں۔ اس طرح ایک طالب علم اپنی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کرنا شروع کرے گا اور guesses کی دنیا سے باہر آکر حقیقی پڑھائی کی طرف دوڑنا شروع کرے گا۔ چوتھی گزارش ہے اساتذہ کو موجود زمانے کے چیلنجز کے لئے تیار کرنا۔ Deepseek اور Generative AI کے اس دور میں قابل ترین اساتذہ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ وہ زمانہ بیت گیا ہے جب اسکول اور کوچنگ مراکز کے اساتذہ پر تکیہ کیا جاتا تھا۔ اب مصنوعی ذہانت نے دنیا کی شکل ہی اس انداز میں بدل دی ہے کہ کچھ لمحوں میں کسی بھی سخت ترین سوال کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سبق کا خلاصہ لکھنا اب کچھ لمحات کی بات ہے۔ ان حالات میں اساتذہ کا موجودہ زمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ضروری اصلاح کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس ضمن میں کچھ ٹھوس اور جلد اقدام اٹھائیں گے تاکہ طلباء کی زندگیوں میں کسی بھی قسم کی کوئی خامی نہ رہے۔ پانچویں اور آخری گزارش ہے کہ کتابوں کو سیشن ختم ہونے سے پہلے ہی مہیا رکھا جائے۔میں نے اس سال کئی طلباء کو جنوری کے آخری ایام میں کتب کو حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ محترمہ! بہت سارے گھرانے انتہائی غربت کی زندگی گزر بسر کررہے ہیں۔ ان کے اوپر گھاس پھوس کا چھت اور فرش کی جگہ ٹھنڈی مٹی ہے لیکن ہر قسم کی سختی کو برداشت کرتے ہوئے وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کی فکر میں مرے جارہے ہیں۔ میں آپ سے ایک چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے بھی یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ کتب کی قیمتوں میں پانچ دس روپے کا اضافہ کرسکتے ہیں لیکن کتب کو وقت پر مہیا رکھنے کی بھرپور کوششیں کی جائے۔ گزارشات تو اور بھی ہیں لیکن مضمون کی طوالت کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میرے کہنے کا منشا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پورا ہوگیا ہے۔مجھے قوی امید ہے، اس اخبار کے وساطت سے آپ میری گزارشات کو ایک بار ضرور پڑھے گے۔ ان میں سے جو آپ کو قابل قبول لگتی ہے، ان پر جلد سے جلد عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لکھنے میں کوئی بھول ہوگئی ہو، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔مجھے طلباء کی فکر ستاتی ہے۔ ان کی مستقبل کے خاطر میں کبھی کبھی قلم اٹھاتا ہوں اور کچھ الفاظ قلمبند کرتا ہوں۔ میں ایک ادنیٰ سا انسان ہونے کے ناطے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا ہوں لیکن دل میں امید ہے کے ہمارے باغ میں بھی ایک دن رنگ برنگی پھول ضرور کھلے گے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]