بلاشبہ دورِ حاضر میںمادیت پرستی نے انسان کو بہت حد تک خود غرض بنا دیا ہے۔بیشتر لوگوںکواب کسی سچائی سے کوئی مطلب ہی نہیں رہا ہے ،چاہے اُن کی شخصیت دوسروں کی نظروں میں مجر و ح ہی کیوں نہ ہوں،وہ اپنی خود غرضی اور جھوٹ کی خُو میں بدمست ہوچکے ہیں۔اس مرض کے نتیجے میں کل تک جس انسان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،اُسے اب نفرت کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔گویا انسان وقت کی رفتار کے ساتھ اتنابدل گیاہے کہ دوسرا انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انسان اپنی اصل شخصیت کھو چکا ہے اور محض مفاد پرستی کا پُتلا بن کر رہ گیا ہے۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا جب ہمارے معاشرےکے محترم یا بزرگ کچھ الفاظ بولتے تھےا تواُن کی باتوں میں ایسی تاثیرہوتی تھی کہ سننے والے اُن کی باتوں کو اپنی شخصیت میں اُتارنے کی بھر پور کوشش کرتے تھے، وہ محترم اشخاص چاہے کسی کے والدین ہوتے یا خاندان کے بزرگ،اُساتذہ ہوتے یا مذہبی رہنمایا کوئی سیاسی شخصیت۔سُننے والے اُن کی بات کو اپنے پلو میں باندھ کے رکھتےاور بعد میں اس پر عمل بھی کرتے تھے۔مگر آج حالات بالکل بدلے بدلے نظر آرہے ہیں اور ہر معاملہ اُلٹ پلٹ ہوچکا ہے۔نہ کسی بات سُنی جاتی ہے اور نہ کسی کی بات پر عمل کیا جاتا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جو کوئی شخص جو کچھ کہتا رہتا ہے ،وہ بذات ِخود اُن باتوں پر عمل پیرا نہیں ہوتا ہےاور یہ صورت حال نہ صرف خاندان کے بڑے بزرگوں،والدین بلکہ اساتذہ سمیت دینی ،سماجی اور سیاسی شخصیات میں بھی نظر آتی ہے۔ہر جگہ ،ہر معاملے یا مسئلے میںوہ جو کچھ کہتے رہتے ہیں،خود اس پر عمل پیرا نہیں رہتے۔یعنی کہتے جوکچھ ہیں، کرتے کچھ اور ہیں۔جس سے یہ بات اُبھر کر سامنے آجاتی ہے کہ آج کا انسان حق پرستی اور دینداری سے کوسوں دور ہوچکا ہے اور ہر کوئی اس لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے جو پورے معاشرے کے لئے ناسور بن گئی ہے اور جس کی تمام ظاہری و باطنی شکلیں ہر سُو دکھائی دے رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ مادیت جب انسانی دلوں میں سرا یت کر جاتی ہے تو مال و دولت اور اعزاز و مفادات کی پر شتش مجبوری بن جاتی ہے۔ یہی وہ بیماری ہے جس نے انسان کو ہر شعبہ میں اضطراب اور بےچینی کا وارث بنا دیا ہے۔اسی بیماری نےہر دل میں بغض و عداوت کے بیج ڈال دئے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی لوگ اس بیماری کے خطر ات کی طرف دھیان نہیں دیتے اور نہ ہی اس سے گلو خلاصی کی ہمّت کر پاتے ہیں ۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر اس مرض کا علاج کیوں نہ ہوتا ، انسان کے اندر انسانیت کیوں نہیں جاگتی ، اور انسان کی معنو ی زندگی کا عروج کیوں نہیں ہوجاتا ۔ظاہر ہے کہ اس کے لئے ضرورت اس بات ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد غفلت کی دبیز چادر کو ہٹا ئیں تاکہ اس کا دل حق اور سچ پر آمادہ ہوجائےاور انسان ،انسانیت کو اپنا پیمانہ بنائیں۔ اگر ہم تھوڑا سا غور و فکرکرلیں ، اپنے اندر کی آواز کو سُننے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ عقل و فہم کے گھوڑے دوڑ ا ئیں تو معلوم ہوگا، اس مرض کا علاج موجود ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہم خارجی حرکات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ اپنے اندرون کا بھی بغور جائزہ لیتے رہیں اور باطنی آنکھ کو بیدار و با ہوش رکھیں، اند رونی وجود کو ہوشیارو چوکس رکھیں ۔جب ہم اپنے باطن کو بیدار کر دیں اور باطن کو ظاہر اور ظاہر کو باطن سے ملا دیں تو سمجھیں کہ ہم نے مقصد ِوجود کو پا لیا اور اپنے قلب کو سکون دینے میں کامیاب ہو گئے،جو زندگی کے لئے بہت ضروری اور اہم ہے ۔اس کے بغیر ہم دولت کا انبار تو لگا سکتے ہیں لیکن حقیقی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔دورِ حاضر کی کسی بھی بڑی شخصیت ،جسے عام انسان ایک کامیاب ترین انسان سمجھتا ہے ،وہ بھی اندر سے ٹوٹا ہوا اور بکھرا ہوا نظر آتا ہے،جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ بھلا ایسا کامیاب انسان بھی صحیح معنوں میں زندگی کے سکھ اور چین سے کتنا دور ہے ۔اس لئے ہم سب کے لئے لازمی ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد سے بچیں اور حق پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ زبان سے جو کچھ بولیں، سوچ سمجھ کر بولیں اور جو بولیں اس کو اپنے کردار میں شامل کرنے کی کوشش کریں، ورنہ ہماری شخصیت کا کوئی وزن باقی نہ رہ پائےگا اور ہم دوسروں کے تشنہ لبی کا بھی آسانی سے نشانہ بنتے رہیںگے ۔ہماری باتوں کے جادو کا اثر کسی پر نہیںچلے گا اور ہمارے کہے گئے الفاظ خود بخود اپنا معنی ٰ بھی کھوتے رہیں گے۔