کاغنیٹیو ڈسونیِنس اسلامی اور سماجی تناظر میں
صدائے کمراز
اِکز اِقبال
’’ابو، آپ نے مجھے سچ بولنے کا کہا تھا۔ لیکن آج دکان پر آپ نے گاہک سے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘سات سالہ علی کے سوال نے جیسے کمرے کی فضا منجمد کر دی۔ باپ کے چہرے پر الجھن اُبھری، ماں نے بات بدل دی۔ مگر بچے کے معصوم سوال نے ایک ایسا در کھول دیا، جہاں سے انسانی ضمیر، ایمان اور رویوں کی اصل تصویر جھانک رہی تھی۔
یہ سوال صرف علی کا نہیں تھا، یہ ہر اُس بچے کا سوال ہے جو بڑوں کے قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر اُلجھتا ہے۔ یہی تضاد درحقیقت وہ نفسیاتی کیفیت ہے ،جسے ماہرین ِ نفسیات “Cognitive Dissonance” یعنی ’’ذہنی تضاد‘‘ یا ’’باطنی کشمکش‘‘ کہتے ہیںاور یہی کشمکش جب مذہب اور معاشرے کے دائرے میں آتی ہے، تو انسان خود کو دو پاٹوں میں پستا ہوا محسوس کرتا ہے —، جہاں ایک طرف ضمیر کی آواز ہوتی ہے اور دوسری طرف نفس، سماجی توقعات یا وقتی مفادات۔
Cognitive Dissonance — باطنی کشمکش کیا ہے؟ یہ وہ کیفیت ہے جب انسان کے عقائد اور اعمال میں تضاد ہو، یا وہ ایسی بات کہے جس پر خود عمل نہ کرے۔ اس تضاد سے جو بےچینی، اضطراب یا احساسِ جرم پیدا ہوتا ہے، وہی cognitive dissonance ہے۔
مثلاً ایک شخص نماز کو فرض سمجھتا ہے، مگر مسلسل چھوڑتا ہے۔ ایک اُستاد دیانتداری کا درس دیتا ہے، مگر خود امتحانات میں نقل کرواتا ہے۔ ایک والد بیٹے کو سچ بولنے کا حکم دیتا ہے، مگر خود ہر دن کئی جھوٹ بولتا ہے۔ ایک شخص حلال رزق کی تلقین کرتا ہے، مگر خود ملاوٹ سے باز نہ آتا۔ ایک مولوی باقیوں کو دين کا علم سکھاتا ہے، مگر خود عمل سے خالی ہوتا ہے۔ایسے تضادات نہ صرف فرد کی روحانی ترقی کو روکتے ہیں، بلکہ سماجی سطح پر بھی دوغلے پن اور منافقت کو جنم دیتے ہیں۔اسلام نہ صرف عقیدے بلکہ عمل پر بھی زور دیتا ہے۔ قرآن کریم میں بارہا قول و فعل کے تضاد کی مذمت کی گئی ہے:
’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ۔‘‘(الصف 2-3)۔’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔‘‘یہ آیات انسان کو اندر سے جھنجھوڑتی ہیں۔ اسلام صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ چاہتا ہے کہ انسان کی زبان، دل اور عمل ہم آہنگ ہوں۔ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر افراد اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اس باطنی کشمکش کا شکار ہیں۔
ہماری گلیوں، بازاروں اور اداروں میں یہ تضاد روز کا معمول ہے۔ہم جھوٹ کو مصلحت اور بددیانتی کو چالاکی کہہ کر ضمیر کو بہلاتے ہیں۔ہم رشوت کو چائے پانی اور حرام کمائی کو قسمت سمجھ کر ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں۔ہم جہیز کو لعنت کہتے ہیں مگر بیٹے کی شادی پر’’چپ رہنے میں ہی بھلائی‘‘ سمجھتے ہیں۔ہم حق گوئی کا درس دیتے ہیں، مگر سچ بولنے والے کو ’’باغی‘‘ یا’’ناسمجھ‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔یہ سب وہ نقاب ہیں جن کے پیچھے ایک بیمار سماج چھپا بیٹھا ہے — ایک ایسا سماج جس نے اخلاقی دیوالیہ پن کو خوش اخلاقی کا نام دے رکھا ہے،وغیرہ وغیرہ۔یہی تضاد وہ زہر ہے جو ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے — جہاں سچائی، دیانت، اور تقویٰ محض تقریروں کی حد تک رہ گیا ہے۔انسان اس کشمکش سے بچنے کے لیے کئی حربے استعمال کرتا ہے۔(۱) جواز تراشنا: ’’کیا کریں، مجبوری ہے‘‘، ’’زمانہ ہی ایسا ہے۔‘‘(۲)عمل کو بدلنے کے بجائے سوچ کو بدلنا: ’’شاید اتنا غلط بھی نہیں‘‘، ’’اللہ دل دیکھتا ہے۔‘‘(۳)دوسروں کی غلطیوں کا حوالہ دینا: ’’سب کرتے ہیں، میں اکیلا کیا بدل سکتا ہوں؟‘‘یہ سب طریقے وقتی طور پر دل کو مطمئن کر سکتے ہیں، مگر ضمیر کی وہ ٹھنڈی آنچ اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے۔
اسلام انسان کو اصلاح کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے۔ Cognitive Dissonance کو نظرانداز کرنے کے بجائے، اسے تزکیۂ نفس کا پہلا زینہ بنایا جا سکتا ہے۔
۱۔ توبہ: سچے دل سے غلطی کا اعتراف اور عمل کی تبدیلی۔
۲۔ مراقبہ و محاسبہ: روزانہ خود سے سوال کریں،’’کیا میں جو کہتا ہوں، وہی کرتا بھی ہوں؟‘‘
۳۔ صحبت ِ صالحین: نیک لوگوں کی صحبت انسان کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
۴۔ علم اور عمل کا رشتہ جوڑنا: صرف جاننا کافی نہیں، جب تک ہم اس پر عمل نہ کریں۔
علی کا سوال معمولی سا تھا، مگر اُس نے ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا — کہ ہماری نئی نسل محض ہمارے الفاظ سے نہیں، ہمارے اعمال سے سیکھ رہی ہے۔ اگر ہم خود تضاد کا شکار رہیں تو ہم کس بنیاد پر انہیں سچ، انصاف، اور دیانت سکھا سکیں گے؟زندگی کا اصل حسن اِسی میں ہے کہ ہم اپنے ایمان، کردار اور ضمیر کو ایک صف میں لے آئیں۔یہ آسان نہیں، مگر یہی راستہ انسان کو اللہ کی رضا، دنیا کی عزت اور خود کی آنکھوں میں وقار عطا کرتا ہے۔
(مضمون نگار، مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
(رابطہ۔ 7006857283)
[email protected]